Book Name:Ala Hazrat Aik Peer-e-Kamil

واضِح تھا ، اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے فرمایا : لا ہمارا شجرہ واپس کر دے۔ اتنا ہی فرمایا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ بَس اسی دِن سے میری طبیعت کسی کام میں نہیں لگتی ، سکول پڑھا کرتا تھا ، وہ بھی چھوڑ دیا ، ہر وقت یہی دِل کرتا ہے کہ بس دھاڑیں مار مار کر روتا رہوں۔

سَیِّد اَیُّوب علی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : نوجوان کی باتیں سُن کر ہم نے اسے تسلی دِی  اور کہا : آپ گھبرائیں نہیں ، ظہر کے وقت اعلیٰ حضرت ( رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ ) تشریف لائیں گے ، نماز کے بعد عرض کر دیجئے گا کہ میں تجدیدِ بیعت کے لئے حاضِر ہوا ہوں۔  ہماری بات سُن کر اس نوجوان کو کچھ سکون ہو گیا۔ ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اعلیٰ حضرت ( رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ ) خِلافِ معمول اپنے کمرے سے باہَر تشریف لائے اور اُس نوجوان سے فرمایا : آپ کیسے آئے؟ اعلیٰ حضرت ( رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ ) کے یہ الفاظ سُن کر ہمیں تعجب ہوا ، کیونکہ عادتِ کریمہ یہ تھی کہ جب بھی  کوئی آتا تو اس سے پوچھتے : آپ نے کیسے تکلیف فرمائی؟ (یعنی اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کا عادت سے ہٹ کر اُس نوجوان سے یُوں پوچھنا کہ آپ کیسے آئے؟  یہ الفاظ ہی بتا رہے تھے کہ آپ اُس نوجوان سے سخت ناراض ہیں)۔

خیر! اُس نوجوان پر غم کا غلبہ تھا ، اُس نے اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کے اس سُوال پر رونا شروع کر دیا اور کوئی جواب نہ دے پایا۔ تھوڑی دیر بعد اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے فرمایا : رونے سے کوئی نتیجہ نہیں ، مطلب کہئے! یہ فرمان سُن کر اُس نوجوان نے سارا واقعہ بیان کیا۔  اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے اُس کی تمام رُوداد سُن کر فرمایا :   میرے پاس کس لئے آئے ہیں؟ وہ نوجوان پھر رونے لگا ،  غم کے غلبے کی وجہ سے اُسے اتنی ہمت ہی نہ ہوئی کہ تجدیدِ بیعت کے لئے عرض کر سکتا۔ خیر! اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے فرمایا : آپ قیام کریں ، مجھے کام کرنا ہے۔ یہ کہہ کر آپ واپس تشریف لے گئے۔