Book Name:Shan e Ameer Hamza

بابُ الدُّعا ہے بےشک جن کا مزارِ اَنْور      وہ بندۂ خدا ہیں حضرت امیر حمزہ

جو مانگا مِل گیا

حضرت ابو العبّاس مَرسِی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ   فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں حضرت امیر حمزہ  رَضِیَ اللہُ عنہ   کے مزار مبارک پر حاضِری کے لئے نکلا تو ایک شخص میرے پیچھے پیچھے چل دیا ، جب ہم مزار مبارک پر پہنچے تو مزار مبارک کا دروازہ خود بخود کھل گیا ، ہم اندر گئے تو وہاں رجالُ الغَیْب (یعنی اولیائے کرام) میں سے ایک شخص کو دیکھا ، اس وقت میں نے اللہ پاک سے دُعا کی : اَللّٰہُمَّ اَسْاَلُکَ الْعَفْوَ وَ الْعَافِیَۃَ وَ الْمُعَافَاۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ اے اللہ پاک! میں تجھ سے دُنیا و آخرت میں عفو و عافیت کا سوال کرتا ہوں۔

شیخ ابو العبّاس مَرسِی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : میں نے اپنے ساتھی سے کہا : یہ قبولیتِ دُعا کا وقت ہے ، اللہ پاک سے جو چاہئے مانگ لو! میرے اس ساتھی نے دُعا مانگی کہ یا اللہ پاک! مجھے ایک دینار (سونے کا سِکّہ) مل جائے۔

فرماتے ہیں : یہاں سے فارغ ہو کر میں اپنے پِیر و مرشد حضرت ابو الحسن شاذلی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کی خدمت میں حاضِر ہوا ، وہ شخص بھی میرے ساتھ تھا ، ابھی کوئی بات بھی نہ ہوئی تھی ، اس سے پہلے ہی شیخ ابو الحسن شاذلی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے اس شخص سے فرمایا : اے کم ہمت! دُعا کی قبولیت کا وقت تھا اور تُو نے صِرْف ایک دینار مانگا ، تُو نے ابو العباس کی طرح دُنیا و آخرت میں عفو و عافیت کا سوال کیوں نہ کر لیا۔ ([1])


 

 



[1]...مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الزکاۃ ، جلد : 4 ، صفحہ : 315 ، تحت الحدیث : 1855۔