Book Name:Shan e Ameer Hamza

دُعا کا ایک ادب

اے عاشقانِ رسول!  معلوم ہوا؛ اللہ پاک کے نیک بندوں کی خِدْمت میں حاضِری ہو ، مزاراتِ اولیا پر جانا نصیب ہو  اور ا س کے عِلاوہ بھی جب کبھی دُعامانگیں تو کھلے دِل سے مانگیں ، اللہ پاک کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے ، وہ رحمٰن و رحیم ہے ، اللہ وَھَّاب (یعنی بہت عطا فرمانے والا) ہے ، لہٰذا جب اللہ پاک سے مانگنا ہو تو بندہ شرمائے کیوں؟ دو چار پیسے ، چند وقت کا کھانا یا کوئی اور معمولی خواہش ہی کیوں مانگے؟ چھوٹی بڑی ہر چیز اللہ پاک سے مانگے ، پھر یہ بھی نہیں کہ صِرْف دُنیوی نعمتیں ، مال و دولت تو مانگ لے ، آخرت کی بہتریاں نہ مانگے ، نہیں ، نہیں ، ایسا ہر گز نہیں کرنا چاہئے بلکہ درست طریقہ یہ ہے کہ دُعا مانگنے میں پہلے آخرت کی بہتری و بھلائی مانگے ، پھر دُنیا کی بہتری و بھلائی اور جو حاجت ہو وہ مانگے۔ صِرْف دُنیا مانگنا ، آخرت کی فِکْر ہی نہ کرنا  ، یہ اچھی بات نہیں ۔

اِلٰہی میں تیری عطا مانگتا ہوں              کرم مغفرت کی دُعا مانگتا ہوں

خدا تجھ سے تیری وِلا مانگتا ہوں            میں عشقِ شہِ انبیا مانگتا ہوں

اپنے بیٹے کا نام حمزہ رکھنا

ایک مرتبہ شیخ محمود کُردی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ   حضرت امیر حمزہ  رَضِیَ اللہُ عنہ   کے مزار مبارک پر حاضِر ہوئے اور سلام عرض کیا ، فرماتے ہیں : میں نے خُود سُنا کہ حضرت امیر حمزہ  رَضِیَ اللہُ عنہ   نےمزار مبارک کے اندر سے بلند آواز سے سلام کا جواب دیا اور فرمایا : شیخ محمود! تمہارے ہاں بیٹا ہو گا ، اس کا نام حمزہ رکھنا۔ شیخ محمود   رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : اللہ پاک نے واقعی مجھے بیٹا عطا فرمایا تو میں نے اس کا نام حمزہ رکھا۔ ([1])


 

 



[1]...حجۃ اللہ علی العالمین ، المطلب الثالث ، من کرامات حمزۃ ، صفحہ : 614۔