Book Name:Shan e Ameer Hamza

حال عرض کی ، شیخ صفیُّ الدِّین  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے فرمایا : آپ رسولِ اکرم ، نورِ مُجَسَّم  صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم   کے پیارے چچا جان حضرت امیرِ حمزہ  رَضِیَ اللہُ عنہ   کے مزارِ پُرانوار پر حاضِری دیجئے ، وہاں قرآنِ کریم کی تلاوت کیجئے اور اپنی پریشانی عرض کر دیجئے!

شیخ احمد دِمْیَاطی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے اس نصیحت پر عَمَل کیا اور حضرت امیرِ حمزہ  رَضِیَ اللہُ عنہ   کے مزارِ پُر انوار پرحاضِر ہو گئے ، وہاں قرآنِ مجید کی تلاوت کی ، پھر حضرت امیرِ حمزہ  رَضِیَ اللہُ عنہ   کی خدمت میں اپنی پریشانی عرض کر دی۔ یہاں سے حاضِر ہو کر جب آپ واپس اپنی رہائش پر پہنچے تو والدہ محترمہ نے کہا : بیٹا! ایک شخص تمہارا پوچھ رہا تھا۔

یہ سُن کر شیخ احمد دِمْیَاطی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  مسجدِ نبوی شریف میں حاضِر ہوئے ، دیکھا : ایک با رُعب اور سفید داڑھی والی شخصیت ہیں ، انہوں نے دیکھتے ہی فرمایا : شیخ احمد! مرحبا...!!  شیخ احمد  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ   فرماتے ہیں : میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ چومے۔ انہوں نے فرمایا : احمد! آپ مِصْر چلے جائیے! عرض کیا : عالی جاہ! کیسے جاؤں؟ میرے پاس تو کرایہ بھی نہیں ہے اور اُونٹ بھی مَر گئے ہیں۔ وہ بزرگ  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  شیخ احمد  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کو ساتھ لے کر مِصْری حاجیوں کے ایک خیمے میں گئے اور ایک شخص کو اُونٹوں کا کرایہ دے کر فرمایا : آپ شیخ احمد اور ان کی والدہ کو مِصْر پہنچا دیں۔ اس مِصْری حاجی نے بھی اُن بزرگ کی بہت عزّت کی ، اب شیخ احمد  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے جلدی سے اپنا سامان تیار کیا ، والدہ محترمہ کو ساتھ لیا اور مِصْری حاجیوں کے خیمے میں پہنچ گئے ، اس وقت تک وہ نیک بزرگ وہیں تشریف فرما تھے ، اب نماز کا وقت تھا ، شیخ احمد  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  اُن بزرگ کے ساتھ مسجدِ نبوی شریف میں حاضِر ہوئے ، بزرگ  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : احمد! آپ چل کر نماز ادا کیجئے! شیخ احمد  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ