Book Name:Shan e Ameer Hamza

مسجد میں پہنچے ، نماز ادا کی ، منتظر تھے کہ نیک بزرگ بھی آتے ہی ہوں گے مگر وہ تشریف نہ لائے ، شیخ احمد  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : میں نے انہیں بہت تلاش کیا مگر کہیں نہ ملے ، آخر میں شیخ صفی الدِّین  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کی خدمت میں حاضِر ہوا اور سارا واقعہ عرض کیا۔ شیخ صفی الدِّین  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے اُن بزرگ کا حلیہ شریف کے بارے میں  سُن کر فرمایا : وہ نیک بزرگ کوئی اور نہیں بلکہ رسولِ اکرم ، نورِ  مُجَسَّم  صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم   کے چچا جان حضرت امیرِ حمزہ  رَضِیَ اللہُ عنہ  ہی تھے جو آپ کی پریشانی دُور کرنے کے لئے تشریف لائے تھے۔ ([1])

سرکار کے ہیں دِلبر آقا امیرِ حمزہ!               ہیں مُحِبِّ حَبِیْبِ داوَر آقا امیرِ حمزہ!

بھرتے ہیں سب کا دامن اللہ کی عطا سے       آجائے جو بھی در پر آقا امیرِ حمزہ!

بھر دیجئے مری جھولی ، صدقے میں مصطفےٰ کے     آیا ہوں تیرے در پر آقا امیرِ حمزہ!

طیبہ میں مَیْں بھی آؤں ، اب دیجئے اجازت     اے میرے غریب پرور آقا امیرِ حمزہ!

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب!                   صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

شُہَداء زِندہ ہوتے ہیں

اے عاشقانِ رسول! دیکھا آپ نے! حضرت امیرِ حمزہ  رَضِیَ اللہُ عنہ نے اپنے وِصَالِ ظاہِری کے صدیوں بعد ایک پریشان حال کی کیسے مدد فرمائی...! سُبْحٰنَ اللہ!

ہو سکتا ہے شیطان دِل میں وسوسہ ڈالے کہ کوئی شخص دُنیا سے رُخصت ہو جانے کے بعد دُنیا والوں کی مدد کرنے کیسے آسکتا ہے؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ قرآن کریم کی کئی آیات اور بہت ساری احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام  


 

 



[1]...جامع کرامات اولیا ، جلد : 1 ، صفحہ : 108 خلاصۃً۔