Book Name:Shan e Ameer Hamza

اللہرے یہ نسبت ، اللہ رے یہ عظمت       سرکار کے چچا ہیں حضرت امیرِ حمزہ

قبولِ اسلام کا واقعہ

حضرت امیرِ  حمزہ  رَضِیَ اللہُ عنہ   کو شِکار کرنے کا شوق تھا ، ایک مرتبہ آپ شکار کے لئے جنگل گئے ہوئے تھے ، اس روز ابو جہل نے رسولِ بےمثال ، بی بی آمنہ کے لال  صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم   کی سخت گستاخی کی اور آپ  صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم   کے ساتھ بہت نازیبا سلوک کیا ، حضرت امیرِ  حمزہ  رَضِیَ اللہُ عنہ   شکار سے واپس آئے تو آپ کو اس بات کی خبر دی گئی ، آپ  رَضِیَ اللہُ عنہ   یہ سُنتے ہی طیش میں آگئے  ، اسی حالت میں ابوجہل کے پاس پہنچے اور اس کی پِٹائی شروع کر دی ، ابو جہل نے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا : اے حمزہ! کیا آپ دیکھتے نہیں کہ محمد ( صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم  ) کیسا دین لائے ہیں؟ وہ ہمارے معبودوں کو بُرا کہتے ہیں اور ہمارے باپ دادا کو بدعقل بتاتے ہیں۔ حضرت امیرِ حمزہ  رَضِیَ اللہُ عنہ  اس وقت تک ایمان نہیں لائےتھے مگر اس وقت آپ کے دِل و دماغ پر اپنے بھتیجے (یعنی حضورِ اکرم ، نورِ  مُجَسَّم  صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم  ) کی محبت غالِب تھی ، آپ نے ابو جہل کی بات سُن کر فرمایا : تم واقعی بدعقل ہو کہ اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے پتھروں کو خُدا مانتے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد  صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم   اللہ کے سچے رسول ہیں۔([1])

اس وقت حضرت امیرِ  حمزہ  رَضِیَ اللہُ عنہ   کے دِل پر  محبتِ مصطفےٰ غالِب تھی ، آپ نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا ، فرماتے ہیں : بعد میں مجھے اس بارے میں پریشانی ہوئی ، میں نے ساری رات سوچ بچار میں گزاری ، صبح کو حرمِ کعبہ میں حاضِر ہوا اور گِڑگِڑا کر اللہ پاک کی بارگاہ


 

 



[1]...تفسیر کبیر ، پارہ : 8 ، سورۂ انعام ، زیرِ آیت : 122 ، جلد : 5 ، صفحہ : 134۔