Book Name:Surah Fatiha Fazail Aur Mazameen

مضبوط کہ بندے کا دِل ، دماغ ، اس کی سوچیں ، خیالات اور تمام تَر تَوجُّہات ہر وقت اللہ پاک کی طرف رہیں ،  بندے کو ہر وقت یہ یقین ہو کہ میرا رَبّ مجھے دیکھ رہا ہے ، وہ میرے ظاہِر حال کو بھی جانتا ہے اور میرے باطن کو بھی جانتا ہے۔ اسے مُرَاقَبَۃُ اللہ کہا جاتا ہے۔

مراقبہ کی ایک مثال سے وضاحت

امام قُشَیْرِی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  نےمراقبہ کی ایک مثال کے ذریعے وضاحت فرمائی ہے ، فرماتے ہیں : ایک بادشاہ تھا ، اس کے چند غُلام تھے ، بادشاہ اُن میں سے ایک غُلام کے ساتھ خصوصی محبت کیا کرتا تھا ، بظاہِر اس میں کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی ، پھر بھی بادشاہ اسے بہت پسند کرتا تھا ، دوسرے غُلاموں کو یہ بات کھٹکتی تھی ، ایک مرتبہ اُن غُلاموں نے ہمت کی اور بادشاہ سلامت کی خِدمت عرض کر ہی دیا ، بولے : بادشاہ سلامت! اس غُلام میں ایسی کونسی خاص بات ہے کہ آپ اس پر بہت مہربان ہیں؟ بادشاہ نے سوال کا جواب نہ دیا بلکہ کہا : ہمیں ایک سَفَر درپیش ہے ، تیاری کرو! ہم سفر پر جا رہے ہیں۔ چنانچہ گھوڑے تیار کئے گئے اور بادشاہ سلامت اپنے غُلاموں کو ساتھ لے کر سفر پر روانہ ہو گئے ، پہاڑی علاقے کا سَفَر تھا ، کچھ دُور جا کر ایک پہاڑ نظر آیا ، جو برف سے ڈھکا ہوا تھا ، بادشاہ سلامت نے دُور سے اس پہاڑ کو دیکھا اور سَر جھکا لیا۔ جیسے ہی بادشاہ نے سَر جھکایا ، وہ غلام جو بادشاہ کا منظورِ نظر تھا ، اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی (یعنی دوڑاتے ہوئے آگے گزر گیا)۔ سب حیران تھے کہ آخر اسے کیا ہوا؟ یہ کہاں جا رہا ہے؟ تھوڑی دیر کے بعد غُلام واپس آیا ، اس کے ہاتھ میں برف تھی۔ بادشاہ نے پوچھا : تم یہ برف کیوں لائے؟ کہا : بادشاہ سلامت! آپ نے اس برف والے پہاڑ کی طرف دیکھا ، پھر سَر جھکا لیا ، میں جانتا ہوں کہ آپ بِلاوجہ ایسے نہیں کیا کرتے ، بَس میں سمجھ گیا کہ بادشاہ سلامت برف چاہتے ہیں۔