Book Name:Musalman Ki Izzat Kijiye

حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ   اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: اُمَّتِ رسولُ اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّم قیامت کے دن  گزشتہ انبیائے کرام(  عَلَیْہِم السَّلَام  )کی گواہ بھی ہو گی (یعنی یہ گواہی دے گی) کہ انہوں نے اپنی اُمّتوں کو تبلیغ فرما دی اور گنہگاروں کی شفاعت کرنے والی بھی ہو گی مگر جو مسلمان لعنت کرنے اور طعنے دینے  کا عادِی ہو گا، وہ ان دونوں نعمتوں سے محروم رہے گا۔ لہٰذا دُنیا میں لعن طعن کے عادِی نہ بنو۔([1])

(2): حضرت عبد اللہ بن مسعود  رَضِیَ اللہُ عنہ   سے روایت ہے، رسولِ اکرم، نورِ  مُجَسَّم  صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا: مؤمن نہ طعنہ دینے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فُحش (یعنی بےہُودہ) بکنے والا ہوتا ہے۔ ([2])

فُحش بات کے معنیٰ یہ ہیں:التَّعْبِيرُ عَنِ الْأُمُورِ الْمُسْتَقْبَحَةِ بِالْعِبَارَاتِ الصَّرِيحَةِ یعنی  شرمناک اُمور (مثلاً گندے  اور بُرے مُعاملات) کا کُھلے الفاظ میں تذکرہ کرنا۔([3])

اس حدیثِ پاک کی شرح میں مفتی صاحب  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ   فرماتے ہیں:  یہ عُیُوب (یعنی طعنے دینا، لعنت کرنا اور فُحش بکنا، یہ) سچے مسلمان میں نہیں ہوتے، اپنے عیب نہ دیکھنا، دوسرے مسلمانوں کے عیب ڈھونڈنا، ہر ایک کو لعن طعن کرنا اسلامی شان کے خِلاف ہے۔ بعض لوگ جانوروں کو، ہوا کو گالیاں دیتے ہیں، بعض لوگ گالی پہلے دیتے ہیں، بات بعد میں کرتے ہیں، یہ سب اس حدیثِ پاک سے عِبْرت پکڑیں۔ ([4])


 

 



[1]...مرآۃ المناجیح، جلد:6، صفحہ:451 بتغیر قلیل ۔

[2]...ترمذی، کتاب البر والصلۃ، صفحہ:481، حدیث:1977۔

[3]...احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، جلد:3، صفحہ:122۔

[4]...مرآۃ المناجیح، جلد:6، صفحہ:469بتغیر قلیل۔