Book Name:Musalman Ki Izzat Kijiye

(3):ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو...!

اجتماعی زندگی کے آداب میں سے تیسرا اَدب قرآنِ کریم نے یہ بیان کیا:  

وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-  (پارہ:26،سورۂ حجرات:11)

 ترجَمہ کنزُ الایمان:اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو۔

صَدْرُ الاَفاضِل  سید محمد نعیم الدِّین مراد آبادی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ   اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: (یعنی وہ نام ) جو انہیں ناگوار معلوم ہوں (ان ناموں سے نہ پُکارو!) جیسے کسی کو لمبو! موٹو! کالُو! وغیرہ کہہ کر پُکارنا۔ ([1])

بُرے نام سے پُکارنے کا حکم

افسوس! آج کل یہ بَلا بھی معاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے، آدمی کا اَصْل نام بہت اچھا ہوتا ہے، پھر لوگ نہ جانے کیوں دوسروں کو بُرے ناموں سے پُکارتے ہیں۔ جس کا جو نام ہو، اس کو اُسی نام سے پُکارنا چاہئے، اپنی طرف سے کسی کا اُلٹا نام مثلاً لمبو، ٹھنگو وغیرہ نہ رکھا جائے، عموماً اس طرح کے ناموں سے سامنے والی کی دِل آزاری ہوتی ہے اور وہ اس سے چِڑتا بھی ہے، اس کے باوُجُود پُکارنے والا جان بوجھ کر بار بار مزہ لینے کے لئے اسی الٹے نام سے پُکارتا ہے۔ میرے آقا، اعلیٰ حضرت ، شاہ امام احمد رضا خان  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ   فرماتے ہیں: کسی مسلمان بلکہ کافِر ذِمّی کو بھی شرعی حاجت کے بغیر ایسے الفاظ سے پُکارنا جس سے اس کی دِل شکنی ہو، اُسے ایذا پہنچے، شرعاً ناجائِز و حرام ہے، اگرچہ بات فِیْ نَفْسِہٖ سچی ہو۔([2])  

مثلاً کسی کا رنگ واقعی کالا ہے، اس کے باوُجُود اسے کالو کہہ کر پُکارنے سے اس کی دِل آزاری ہوتی ہے تو اسے یُوں پُکارنا ناجائِز و حرام ہی رہے گا۔


 

 



[1]...خزائن العرفان، پارہ:26، سورۂ حجرات، تحت الآیۃ:11، صفحہ:950۔

[2]...فتاویٰ رضویہ، جلد:23، صفحہ:204۔