Book Name:Shoq e Hajj

طلب سچی ہو ،  شوق سچا ہو تو اللہ کریم کی رحمتیں ضرور ملتی ہیں ،  ضرور نظرِ کرم ہوتی ہےاور بندے کو حج کی سعادت مل ہی جاتی ہے۔

ہِند سے یکایک کعبے کے رُوبَرُو

                              ہِند کا واقعہ ہے ،  حج کے ایام تھے ، 9 ذی الحج (یعنی عرفات) کا دن تھا ،  ایک بوڑھے میاں جو گھاس کاٹا کرتے تھے وہ اپنے کھیت میں کام کر رہے تھے ،  اچانک دل میں شوقِ حج نے اَنگڑائی لی ،  خیال آیا کہ آج یوم ِعرفہ ہے ،  حاجی میدانِ عرفات میں جمع ہوں گے اور رَبِّ کریم کی بارگاہ میں دعائیں ،  التجائیں کر رہے ہوں ،  یہ خیال آتے ہی دلِ پُر دَرْد سے ایک آہ نکلی اور نہایت حسرت سے بوڑھے میاں نے کہا :  کاش...!  میں بھی  حج  سے مشرف ہوا ہوتا...! !

قریب ہی حضرت شیخ  جہانگیر سَمنانی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ تشریف فرما تھے ،  آپ نے بوڑھے میاں کی یہ حسرت بھری آواز سنی تو انہیں  اپنے پاس بلایا  ، بوڑھے میاں حضرت شیخ جہانگیر سمنانی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ  کی خدمت میں حاضر ہوئے ،  حضرت شیخ سمنانی  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے زبان سے نہیں بلکہ ہاتھ کے اشارے سے فرمایا :  جایئے ! بس اتنا اشارہ ہونے کی دیر تھی ، بوڑھے میاں کیا دیکھتے ہیں! ابھی جو ہِند میں تھے ،  اشارہ ہوتے ہی مسجدِ حرام شریف میں کعبہ شریف کے سامنے موجود ہیں۔

 اَللہُ اَکْبَر! بوڑھے میاں کی تو عید ہو گئی ،  حج کا شوق تھا ، حسرت تھی ، انہوں نے جھوم جھوم کر طوافِ کعبہ کیا ،  میدانِ عرفات میں پہنچے ، حج کے دیگر افعال کو مکمل کیا ،  جب حج کے ایام پورے ہوگئے ،  تو اب بوڑھے میاں کو خیال آیا کہ میرے پاس تو واپسی کا خرچ نہیں ہے ،