Book Name:Shoq e Hajj
پیارے اسلامی بھائیو! پتا چلا کہ آج جو حاجی حج کی سعادت پاتے ہیں ، پیسہ خرچ کرتے ہیں ، سفر کی مشقت برداشت کرتے ہیں ، طوافِ کعبہ کی سعادت پاتے ہیں ، مِنیٰ میں ، میدانِ عرفات میں ٹھہرتے ہیں ، مزدلفہ کا قیام کرتے ہیں ، صفا مروہ پر دوڑتے اور مشقت برداشت کرتے ہیں ، یہ عملی طور پر(Practically) اس بات کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں ، جنہوں نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کی پکار پر لَبَّيْك کہا تھا۔
اے عاشقانِ رسول! حج ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔اللہ پاک فرماتاہے :
وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ (پارہ : 4 ، سورۂ آلِ عمران : 97)
ترجَمہ کنزُ الایمان : اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے۔
پتہ چلا جو شخص کعبہ شریف تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے ، اس پر حج فرض ہے۔سرورِ عالم ، نورِ مُجَسَّم صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے استطاعت کی تفسیر زَادْ اور رَاحِلَہ سے کی ، راحِلہ کا مطلب : سواری ، زاد کا مطلب : سفر کا خرچ۔علمائے کرام فرماتے ہیں : جس کے پاس اتنا مال ہے کہ گھر سے چل کر مکہ مکرمہ پہنچے ، وہاں قیام کے اخراجات ، وہاں سے واپسی کے اخراجات اور جتنے دن حج پر لگیں گے ان ایام کا گھر والوں کا خرچہ اس کے پاس موجود ہو ، راستہ بھی پر امن(Peaceful) ہو تو اس پر حج فرض ہو جاتا ہے۔([1]) اور یاد رکھئے! حج فرض ہو جانے کے بعد فوراً حج کر لینا ضروری ہے ، یعنی اس میں ٹال مٹول کرنا کہ * آئندہ سال چلا جاؤں گا * بیٹیوں کی شادی کر لوں اس کے بعد حج کے لئےجاؤں گا