Book Name:Aala Hazrat K Aaala Akhlaq

نکلا۔ اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  اس فتویٰ کو لے کر میرے پاس خو د تشریف لائے اور ایک روپیہ اپنے دست ِمبارک سے عنایت فرماتے ہوئے فرمایا : مولانا !  سب سے پہلا فتویٰ جب میں نے لکھا تھا تو میرے والدِ ماجد نے مجھے مٹھائی کھانے کیلئے  ایک روپیہ عنایت فرمایا تھا۔ آج آپ نے جو فتویٰ لکھا یہ پہلا فتویٰ ہے اور مَاشَآءَ اللہ ! با لکل صحیح ہے۔اِس لئے اپنے والد صاحب کی پیروی  میں ایک روپیہ آپ کو مٹھائی  کھانے کیلئے  دیتا ہوں ، خوشی  کی وجہ سے میری زبان بند ہو گئی اور میں کچھ بول نہ سکا ، اس لئے کہ فتویٰ پیش کرتے وقت میں خیال کر رہا تھا کہ خدا جانے کہ جواب صحیح لکھا ہے یا غلط ، مگر خدا کے فضل سے وہ صحیح اور بالکل صحیح نکلا اور پھر اس پر انعام اور وہ بھی ان الفاظ ِ کریمہ کے ساتھ کہ میرے والدِ ماجد نے مجھے اوّل فتویٰ پر انعام  ( Gift )  دیا تھا ، اس لئے میں بھی اوّل فتویٰ صحیح پر انعام دیتا ہوں۔ حق یہ ہے کہ ایک خادم کی وہ عزّت افزائی ہے جس کی حد نہیں اور پھر اس عزّت افزائی کو ہمیشہ برقرار رکھا۔   ( [1] )

آپ مزید فرماتے ہیں کہ  اسی سلسلہ میں  یہ بات مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے کہ  طالب علمی کے زمانہ میں جب کبھی   ماہ ِرمضا ن  شریف میں بریلی  شریف میں رہنا ہوا  اور ان چھٹیوں میں گھر نہ آیاتو عید الفطر کے دن  جس طرح  تمام عزیزوں کو   عیدی تقسیم فرماتے ، مجھے اور دوسرے خاص طلبہ   مثلاً  مولوی عبد الرشید  صاحب  ، مولوی شاہ غلام محمد  صاحب ، مولوی  محمد  ابراہیم صاحب   ، مولوی محمد نذیر الحق صاحب  اور مولوی  اسمٰعیل  صاحب  سب کو  اعلی


 

 



[1]... حیات ِ اعلیٰ حضرت ، ج1 ، ص154 مطبوعہ لاہور ۔