Book Name:Ikhtiyarat e Mustafa

کو یہ معلوم ہوا کہ حضرت  علی رَضِیَ اللہ  عَنْہُ کی نمازِ عصر قضا ہوگئی تو آپ صَلَّی اللہ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ دُعا فرمائی کہ یااللہ پاک! یقیناً علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھے ، لہٰذاتُو سُورج کو واپس لوٹا دے تاکہ علی نمازِ عصر اَدا کرلیں۔ حضرت  اَسماء بنتِ عُمَیْس رَضِیَ اللہ  عَنْہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ڈُوبا ہوا سورج پلٹ آیا اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور زمین کے اوپر ہر طرف دُھوپ پھیل گئی۔ ( [1] )  

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                            صَلَّی اللہ  عَلٰی مُحَمّد

  پیارے اسلامی بھائیو!آئیے! میلادِ مُصطفی کی کچھ حَسِین گھڑیوں کاذِکر سُنتے ہیں ، کہ جب میرے آقا صَلَّی اللہ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی دُنیا میں تشریف آوری ہوئی ، تاریخ کیا تھی؟دن کیا تھا؟ کیاحالات تھے؟آئیے سُنیے ، ایمان تازہ کیجئے۔

 ماہِ ربیع الاوّل کی 12 تاریخ اور دِن دو شنبہ یعنی پیر ہے ، حضرت عبدالمطلب رَضِیَ اللہ  عَنْہُ ، پیارے نبی صَلَّی اللہ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیارے داداجان حرم شریف میں آگئے ہیں ، حضرتِ آمنہ رَضِیَ اللہ  عَنْہا  گھر میں اکیلی ہیں ، کیونکہ ساس اور شوہر کا سایہ پہلے ہی اُٹھ چکا تھا ، سُسر طوافِ خانۂ کعبہ میں مشغول ہیں ، خیال کیا کہ کاش! اِس وقت خاندانِ عبدِمناف کی کچھ عورتیں میرے پاس ہوتیں ، اچانک کیا دیکھتی ہیں نہایت حسینہ و جمیلہ عورتوں سے گھر بھر گیا ۔آپ رَضِیَ اللہ  عَنْہا  نے اُن سے اس اِسْتفسار فرمایا  ” بیبیو تم کون ہو؟ کہاں سے آئی ہو ؟ اور کیوں آئی ہو؟ “  اُن میں سے ایک بولیں ،  ” میں اُمُّ البشر تمام انسانوں کی ماں زوجۂ آدم ، حوّا ہوں “ رَضِیَ اللہ  عَنْہا ، دوسری بولیں ، ” میں فرعون کی بیوی آسیّہ ہوں “ رَضِیَ اللہ  عَنْہا ، تیسری بولیں ، ” میں عیسیٰ روح اللہ  عَلَیْہِ السَّلَام کی والدہ مریم ہوں رَضِیَ اللہ  عَنْہا  اور باقی تمام عورتیں جنت کی حوریں ہیں ، آج کونین کے دُولہا ، عالمین کے داتا ، فقیروں کے ملجا و ماوٰی محمد رسولُ الله صَلَّی اللہ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ


 

 



[1] سیرتِ ِمصطفی ، ص ۷۲۲ ملخصاً