Book Name:Sadqat K Fazail

آئے تو کہنے لگے ، اے میرے رب !  تو نے مجھے تھوڑی سی مدت تک کیوں مہلت نہ دی  کہ میں صدقہ دیتا اور صالحین میں سے ہوجاتا۔اور ہر گز اللہ کسی جان کو مہلت نہ دے گاجب اس کا مقررہ وقت آجائےاور اللہ تمہارے کاموں سے خوب خبردار ہے۔

                                                 پیارے اسلامی بھائیو ! اِس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کا اپنا مال جو دَرْحَقِیقَت اُسے آخرت میں کام آئے گا ، اُسے اللہ پاک کی رِضا و خُوشنُودی دِلائے گا اور نارِ دَوزخ سے  بچائے گا  وہ وہی ہے جو اُس نے صَدَقہ و خَیْرات کے طور پر نیک کاموں میں خَرْچ کردِیا۔البتہ وہ مال جو اُس کے پاس موجود ہےاور وہ اُسے اپنا ہی مال سمجھتا ہے وہ تو اُس کا ہے ہی نہیں ، حقیقت میں تو وہ مال اُس کے وارِثوں  کا ہے۔جیساکہ

حضرت  حارِث بن سُوَیْد رَضِیَ اللہ  عَنْہُ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رِسالت ، ماہِ نُـبُوّت ، مُحْسِنِ اِنْسَانِیّت صَلَّی اللہ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اِرْشادِ حقیقت بُنْیاد ہے : اَيُّكُمْ مَالُ وَارِثِهٖ اَحَبُّ اِلَــيْهِ مِنْ مَالِهٖ ، تم میں سے کس کو اپنے مال سے زیادہ وارِث کامال پسند ہے ؟ صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن نے عرض کی : یارسولَ الله صَلَّی اللہ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! مَا مِنَّا اَحَدٌ اِلَّا مَالُـهُ اَحَبُّ اِلَـيْهِ ، ہم میں سے ہر شَخْص  کو اپنا ہی مال زیادہ پیاراہے۔آپ صَلَّی اللہ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِرْشاد فرمایا : فَاِنَّ مَالَــهُ مَا قَـدَّمَ وَمَالَ وَارِثِهٖ مَا اَخَّرَ ، انسان  کا اپنا مال تو وہ ہے جو اُس نے آگے بھیج دِیا ( یعنی راہِ خُدا میں خَرْچ کردِیا )  اور جو اُس نے پیچھے چھوڑ دِیا  ( دُنیا میں  ) وہ اُس کے وارِث کا ما ل ہے۔ ( بخاری ، کتاب الرقاق ، باب ماقدم من مالہ فھولہ ، ۴ / ۲۳۰ ، حدیث : ۶۴۴۲ )

احادیثِ مُبارکہ میں صَدَقے کے بے شُمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ، آئیے اس ضِمْن میں 8 فرامینِ مُصْطَفٰے  صَلَّی اللہ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سُنتے ہیں ۔

صدقے کی فضلیت پر 8فرامینِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللہ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ