Book Name:Sadqat K Fazail

مُتَعَلِّقپارہ3 ، سُورَۃُ الۡبَقَرَہکی آیت نمبر262اور263میںاِرْشاد فرمایا :

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَاۤ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًىۙ-لَّهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲۶۲) قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًىؕ

 ( پ۳ ، البقرۃ : ۲۶۲ ، ۲۶۳ )

تَرْجَمَۂ کنز العرفان : وہ لوگ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خَرْچ کرتے ہیں پھر اپنے خرچ کرنے کے بعد نہ اِحْسان جتاتے ہیں اور نہ تکلیف دیتے ہیں ، اُن کا انعام اُن کے ربّ کے پاس ہے اور اُن پر نہ کوئی خوف ہوگا اورنہ وہ غمگین ہونگے ، اچّھی بات کہنا اور معاف کردینا اُس خَیْرات سے بہتر ہے جس کے بعدستانا ہو۔

حضرت عَلّامہ عَلاءُ الدِّیْن علی بِن محمد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ تفسیرِ خازِن میں اس آیتِ مُبارَکہ کے تحت فرماتے ہیں کہ اِحْسان رکھنے سے مُراد کسی کو کچھ دینے کے بعد دُوسروں کے سامنے یہ اِظْہار کرنا ہے کہ میں نے اِتنا کچھ تجھے دِیا اور تیرے ساتھ ایسے ایسے سُلُوک کئے۔ پس اس طرح کسی کو مکدّر  ( یعنی رنجیدہ و غمگین ) کرنا ، اِحْسان جَتانا کہلاتا ہےاور کسی کو تکلیف دینے سے مُراد ، اُس کو عار دِلانا ہے ، مثلاً یہ کہا جائے کہ تُو نادار تھا ، مُفْلس تھا ، مَجْبُور تھا ، نکمّا تھا وغیرہ میں نے تیری خبر گیری کی۔ مزید فرماتے ہیں : اگر سائل کو کچھ نہ دِیا جائے تو اُس سے اچھی بات کہنا اور خُوش خُلْقی کے ساتھ ایسا جواب دینا جو اُس کو ناگوار نہ گُزرے اور اگر وہ سُوال میں اِصْرار کرے یا زبان درازی کرے تو اُس سے دَرْگُزر کرنا  ( اُس صَدَقے سے بہتر ہےجس کے بعد ستایا اور اِحْسان جَتایا جائے ) ۔  ( تفسیر خازن ، پ۳ ، البقرۃ ، ۱ /  ۲۰۶ )

اِحْتِرَامِ مُسْلِم

 پیارے اسلامی بھائیو ! غور فرمائیے ! اِسْلام نےاِحْتِرَامِ مُسْلِم کا کس قدر لحاظ رکھا ہے کہ کوئی بھی شَخْص  اپنے مُسَلمان  بھائی کی مالی اِمداد کرنے کے بعد اِحْسان جَتا کر یا طعنہ دے کر اُس کو تکلیف نہ دے ، بلکہ اُس کی عزّتِ نَفْس کا اِحْتِرام کرے ، کیونکہ صَدَقہ وخَیْرات دینے سے کسی کو یہ حق حاصِل