Book Name:Sadqat K Fazail

مانگتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے ۔لہٰذا اِس مُعاملے میں بہت اِحْتیاط کی حاجت ہے کہ جو واقعی سفید پوش حاجَت مَنْد ہو یا کمانے پر قُدرت نہ رکھتا ہو ، ایسوں کو ہی دِیا جائے ، پیشہ ور بھکاریوں کو ہرگز ہرگز نہ دِیا جائے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ثواب کے بجائے ہمارے نامَۂ اَعْمال میں گُناہ لکھ دِیا جائے ۔جیساکہ اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولانا شاہ امام اَحمد رَضا خان رَحمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کے فرمان کا خُلاصہ ہے : جن کو سُوال کرنا حلال نہیں ، ایسوں کے سُوال پر اُن کا حال جان کر اُنہیں کچھ دینا کوئی کارِ ثواب نہیں بلکہ ناجائز و گُناہ اورگُناہ میں مَدَد کرنا ہے۔  ( مُلَخَّصًاًفتاوٰی رضویہ مُخرَّجہ ج10ص303 )

نبی کریم  صَلَّی اللہ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ باقرینہ ہے : جو شَخْص  لوگوں سے سُوال کرے ، حالانکہ نہ اُسے فاقہ پہنچا ، نہ اتنے بال بچّے ہیں ، جن کی طاقت نہیں رکھتا تو قِیامت کے دن اِس طرح آئے گا کہ اُس کے مُنہ پر گوشت نہ ہو گا۔

  ( شُعَبُ الْاِیْمَان لِلْبَیْہَقِیّ ج3 ص 274حديث 3526 )

بہرحال زکوٰۃ ، صَدَقہ و خَیْرات دینے سے پہلے خُوب خُوب غور کرلینا چاہئے اور کیا ہی اچھا ہو کہ غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ، بیواؤں ، حاجَت مَنْدوں اور رِشتہ داروں کے ساتھ ساتھ ہم اپنے صَدَقات ومدنی  عَطِیّات نیکی کے کاموں ، مَسَاجِد و مَدارِس کی تَعْمِیْر و تَرَقّی نیز دِیْنِ اِسْلام کی سربُلندی اور عِلْمِ دِیْن کے فَروغ کی خاطِر عِلْمِ دِیْن حاصِل کرنے والےطلبہ و طَالِبات کے لئے دعوتِ اسلامی کو دے کر اپنی آخرت کا سامان کریں ۔یاد رہے کہ عام حاجَت مَنْدوں کے مُقابلے میں دِین کی خاطِر اپنے گھربار چھوڑ کر مَدارِس میں قِیام پذیر ضرورت مندطلبہ کی ضروریات پوری کرنا اور اُن کی مالی خِدمت کرنا زِیادہ بہتر ہے ۔چُنانچہ مکتبۃ المدینہ کی  کِتاب  ” ضِیائے صَدَقات “   کے صفحہ 172 پر ہے : امام غزالی  رَحمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نَقْل کرتے ہيں کہ ايک عالِم کا مَعْمُول تھا کہ وہ صَدَقہ دينے میں صُوفی فُـقَراء کو تَرْجِيْح ديتے۔ اُن سے عَرْض کی گئی کہ آپ اگر عام فُـقَراء کو صَدَقہ ديں تو  کيا وہ اَفْضَل نہيں ؟  جواب دِيا : يہ نيک لوگ ہر وقت اللہ پاک کے ذِکْر و فِکْر