Book Name:Akhirat Ki Fikar Karni Hai Zaror

روئے ۔ فرمایا : مجھے بارگاہِ اِلٰہی میں کھڑے ہونے کا مَنْظَر یاد آ گیا تھا ۔اِتنا کہنے کے بعد آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی اور کافی دیر کے بعد ہوش میں آئے ، اس کے بعد میں نے آپ رحمۃُ اللہ علیہ کو کبھی مسکراتے نہیں دیکھا۔ ( [1] )

ترے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ    میں  تھرتھر  رہوں  کانپتا  یاالٰہی ( [2] )

پیارے اسلامی بھائیو! اسے کہتے ہیں : اِیْقانِ آخرت۔ یعنی آخرت پر ایسا پختہ یقین کہ شک وشُبہ کی بالکل کوئی گنجائش نہ بچے ، فِکْرِ آخرت دِل و دِماغ پر چھا جائے۔ آخرت پر ایسا پختہ یقین ، ایسا اِیْقان مطلوب ہے۔یہ اَہْلِ تقویٰ کا وَصْف ہے۔ یقین مانیئے! اگر ہمیں بھی ایسا پختہ یقین  نصیب ہو جائے تو دُنیا کی ساری فِکْریں مٹ جائیں۔ ہمارا کردار بھی سَنْوَر جائے ، اَخْلاق بھی سَنْور جائیں ، ہمارےاَعْمَال بھی نیک ہو جائیں ، گُنَاہوں کی عادات بھی چھوٹ جائیں اور ہم صحیح معنوں میں نیک مسلمان بننے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

فِکْرِ آخرت نہ ہونے کے بعض اَسْباب

مگر افسوس! * دُنیا کی محبّت * مال و دولت کی حِرْص * فضولیات میں مشغولیت * عزّت و شہرت اور منصب کی ہَوَس * گُنَاہوں کی کَثْرت * اور لمبی اُمِّیدوں نے ہمیں غافِل کر دیا ہے ، دِل پر غفلت کے پردے پڑے ہیں اور ہم فِکْرِ آخرت سے کوسوں دُور ، بَس دُنیوی مستقبل چمکانے کی فِکْر میں دِن رات گزارے چلے جا رہے ہیں۔

 * ہم یقین سے جانتے ہیں کہ ایک دِن مرنا ہے مگر ہم موت کی تیّاری نہیں کرتے * ہم جانتے ہیں کہ قَبْر میں اُترنا ہے مگر ہمیں قَبْر کے اندھیرے ، تنہائی اور وَحْشَت کی فِکْر


 

 



[1]... سیرۃ و مناقب عمر بن عبد العزیز لا بن جوزی ، صفحہ : 216۔

[2]...وسائلِ بخشش ، صفحہ : 105۔