Book Name:Duniya Nay Hamen Kya Diya

کاعمل۔پھر 2چیزیں واپس لوٹ آتی ہیں جبکہ ایک اس کے ساتھ باقی رہتی ہے۔گھر والے اور مال لَوٹ آتے ہیں جبکہ اس کاعمل اس کے ساتھ جاتا ہے ۔   ( [1] ) جبکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہ  سے روایت ہے : جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو فِرشتے کہتے ہیں : مَاقَدَّمَیعنی اس نے آگے کیا بھیجا؟اور لوگ پوچھتے ہیں : مَاخَلَّفَ یعنی اس نے پیچھے کیا چھوڑا؟ ( [2] )   یعنی مرتے وقت وارثین تو چھوڑے ہوئے مال کی فکر میں ہوتے ہیں کہ کیا چھوڑ ے جا رہا ہے ؟ اور جو فِرشتے روح قبض کرنے کے لئے آتے ہیں وہ اعمال و عقائد کا حساب لگاتے ہیں۔ ( [3] )  

پیارے اسلامی بھائیو ! عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم دنیا اور اس کے سامان کی فکر چھوڑیں اور نیک اعمال کمانے میں مشغول ہو جائیں۔ جس مال و دولت کو کمانے کے لئے ہم زندگی ختم کر بیٹھتے ہیں اس میں سے بھی صرف اتنا ہی ہمارا ہے جتنا ہم نے خرچ کر دیا۔ جو رہ گیا وہ ہمارا نہیں بلکہ ورثا کا ہو گا۔ اس لئے عقلمندی کا تقاضا ہے کہ مال ودولت اور دنیا کی ہوس کو ختم کریں اور عاقبت سنوارنے پر توجہ دیں۔ اس پیسے نے کسی سے وفا نہیں کی ، یہ واقعی ہاتھوں کا میل ہے ، بالفرض اگر زندگی میں کروڑوں اربوں روپے جمع کر بھی لئےجائیں تب بھی  ہم صرف اتنا ہی اِستعمال کر سکتے ہیں جتنا ہم کر سکیں ۔ یوں سمجھئے جیسے کسی شخص کو خوب بھوک لگی ہو ، سامنے بریانی کی دیگ پک رہی ہو ، بریانی کی بھینی بھینی خوشبو دل و دماغ کو مسحور کر رہی ہو ، دل اس کی طرف مائل ہو ، منہ میں پانی آ رہا ہو ، دل کر رہا ہو گا کہ ساری کی


 

 



[1]...بخاری ، کتاب الرقاق ، باب سکرات الموت ، صفحہ : 1599 ، حدیث : 6514۔

[2]...شعب الایمان ، باب الزہد و قصر الامل ، جلد : 7 ، صفحہ : 328 ، حدیث : 10475۔

[3]...مرآۃ المناجیح ، جلد : 7 ، صفحہ : 49۔