Book Name:Duniya Nay Hamen Kya Diya

ہے کہ دُنیا اُسی کی عزّت کرتی ہے ، جس کے پاس دولت ہو ، دولت مند ہی کامیاب ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ہم غورکریں کہ  کہیں ہم دنیا سے مَحَبَّت کرنے والوں  کے عبرت ناک انجام سے غافِل تو نہیں ہو گئے ؟ * کیا ہمیں ہمیشہ اِس دُنیا میں رہنا ہے؟ * کیا ہمیں مغفرت کا پروانہ مل چکا ہے؟ * کیا ہم پچھلی اُمَّتوں پر آنے والے عذابات کو بُھول گئے؟ * کیا ہمیں روزانہ اُٹھتے جنازوں سے عبرت حاصل نہیں ہوتی؟ *  کیا  ہم بسترِ علالت پر سسکتے مریضوں سے سبق حاصل نہیں کرتے؟ * کیا ہم نزع کی سختیاں سہہ سکیں گے؟ * کیا ہم تنگ و تاریک قبر کو بُھول گئے؟ * کیا ہم نے قبر کے سانپ بچھوؤں اور کیڑے مکوڑوں سے نجات کا سامان کرلیا؟ * کیاہم مُنکرنکیر کے سوالات کےجوابات دینے کی تیاری کر چکے ہیں؟ * کیا قیامت کے دن کےحِساب  وکتاب کی تیاری ہم کر چکے ہیں ؟ * بہرحال عافیت اِسی میں ہے کہ ہم  نے جتنا دنیا میں رہنا ہے اُتنا دنیا کیلئے اور جتنا عرصہ  قبر وآخِرت کا ہے ، اُتنی قبر وآخرت کی تیاری میں مشغول رہیں ، کئی ہنستے بولتے اِنسان اچانک موت کا شِکار ہوکر دیکھتے ہی دیکھتے اندھیری قبر میں پہنچ جاتے ہیں ، اِسی طرح ہمیں بھی مرنا پڑے گا ، اَندھیری قبر میں اُترنا پڑے گا اور اپنی کرنی کا پھل بُھگتنا پڑے گا۔

امیرِ اہلسنّت حضرت علامہ مولانا محمدالیاس عطارؔقادِری دَامَت بَرَکاتہمُ الْعَالِیَہ  نصیحت کے مدنی پھول عطا فرماتے ہیں :

تُو خوشی کے پُھول لے گا کب تلک؟     تُو یہاں زندہ رہے گا کب تلک؟

دولتِ دُنیا کے پیچھے تُو نہ جا              آخرت میں مال کا ہے کام کیا؟