Book Name:Jannati Mahal ke Qeemat
آئیے ! اس طرح کی صلح کی چند مثالیں سُنتے ہیں : مثلاً * میاں بیوی میں اس طرح صلح کرائی جائے کہ خاوند اُس عورت کی سوکن کے پاس نہ جائے گا۔ایسی صُلْحُ کروانادُرست نہیں * اسی طرح عورت کو 3طلاقیں ہو جانے کے باوجود شوہر اور بیوی سے یہ کہنا کہ کوئی بات نہیں ، تم سے جو غلطی ہوئی اُسے اللہ پاک معاف کر دے گا ، ا ِس لئے تم اب آپس میں صلح کر لو ، حالانکہ 3 طلاقوں کے بعد وہ عورت اپنے شوہر پرحرام ہو چکی ہے اور صرف صلح کر لینے سے یہ حرام حلال نہیں ہو سکتا ، تو اِن کا یہ صلح کرواناحرام کو حلال کرنے کی کوشش کرنا ہے اور یہ ہر گز جائز نہیں ہے * مقروض مسلمان سُود اپنے قرض خواہ کو دے گا ( ایسی صُلْحُ کروانادُرست نہیں ) ( [1] ) * اگر مقروض طے شدہ مدت میں قرض ادا نہ کر سکا تو اب اس بات پر صلح کروانا کہ مقروض اضافی مدت پر جرمانہ ادا کرے ، ایسی صُلْحُ کروانادُرست نہیں * کسی سے اس بات پر صلح کرنا کہ وہ اپنے سگے بھائی یا بہن سے تعلقات ختم کر لے گا ، ایسی صُلْحُ کروانادُرست نہیں * اپنے دوست کو مجبور کرنا کہ مجھ سے صلح کرنی ہے تو فُلاں ڈرامہ یا گانا سننا یا دیکھنا ہوگا ، ایسی صُلْحُ کروانادُرست نہیں۔
پیارے اسلامی بھائیو ! اِن مثالوں سے معلوم ہواکہ صُلْح ذاتی حقوق میں ہوتی ہے ، شریعت کی نافرمانی میں صلح جائز نہیں۔اللہ و رسول کی نافرمانی میں نہ کسی مخلوق کی اطاعت ہے اور نہ مُدَاہَنَت ( دِین کے بارے میں کم ہمتی ) کی اِجازت ہے۔
مُسلم شریف کی حدیث میں ہے : لَا طَاعَۃَ فِیْ مَعصِیَۃِ اللہ اِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعرُوْفیعنی اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اِطاعت جائز نہیں ، اِطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔ ( [2] )