Book Name:Maa Ki Dua Ka Asar

رکھ کر اُن کی دعاؤں میں سے حِصّہ پاتے تھے۔لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی اِن اللہ والوں کے نَقْشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی ماں کی خدمت پر کمر بَستہ ہوجائیں تاکہ ہم بھی اُن کی آنکھوں کا تارا بن جائیں اور وہ خوش ہوکر خودہمارے حق میں دُعائیں کریں کہ ” ربِّ کریم ! میری اَولاد کو حافظِ قرآن ، قاریِ قرآن ، مُبَلِّغِ دعوتِ اسلامی ، عالِمِ باعمل اورمفتیِ دعوتِ اسلامی بنادے ، ان کو دونوں جہاں میں کامیابیاں عطا کردے ، اِنہیں بِلاحساب و کتاب جنّت میں داخِل فرمادے ، اِن سے ہمیشہ کے لئے راضِی ہوجا “ وغیرہ ۔تو آئیے ! آج ہم سب نِیَّت کرتے ہیں کہ ہم بھی اپنے ماں باپ کی خدمت کرتے رہیں گے ، اُن کی نافرمانی سے بچیں گے ، اُن سے زبان درازی نہیں کریں گے ، اُن کے سامنے آواز دِھیمی اور نگاہیں نیچی رکھیں گے ، اُن کی خلافِ مزاج باتوں اور سخت جُملوں پر صَبْر کریں گے ، اُن کی ضرورتوں کو پُورا کریں گے ، اپنی حَیْثِیَّت کے مطابِق ان کی بہتر سے بہتر کفالت کریں گے ، ماں باپ کی پسند و ناپسند کا خیال رکھیں گے ، ماں باپ کے دُکھ تکلیف میں اُن کا سہارا بنیں گے ، ماں باپ کے آرام میں خلل نہیں ڈالیں گے ، رُوٹھے ہوئے والِدَین کو منانے کی کوشش کریں گے ، اُن کے کھانے پینےرہن سہن ، دوا اور دیگر چیزوں میں اُن کی خیر خواہی کریں گے ، اُن کا ہر جائز حکم مانیں گے۔اِنْ شَآءَ اللہ

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب !                                            صَلَّی اللہ  عَلٰی مُحَمَّد

 پیارےاسلامی بھائیو ! بدقِسمتی کے ساتھ ، علمِ دِین سے دُوری کے سبب ایسے نادانوں کی بھی ایک تعدادہے جو ماں باپ کی خوشی پراپنی خوشی قربان  کرنے کے بجائے اپنی نفساتی خواہشات کے پیچھے لگ کرماں باپ کو داؤپر لگادیتے ہیں ، جہاں اپنی مرضی ہووہاں جائزوناجائز طریقے سےماں باپ کوزبردستی منوانے کی کوشش کرتے ہیں ، مثلاًاولاد جوان ہوجائے اورکسی وجہ سے شادی میں تاخیر ہورہی ہوتوبسااوقات نادان اولاد دُوسروں سے ماں باپ کی شکایت کرتی ہے کہ دیکھیں میری اب شادی کی عمر ہوگئی ہے ، یہی عمر تو جوانی کی بہاریں دیکھنے کی ہے ، اب بھی اگر میری شادی نہ ہوئی