Book Name:Maa Ki Dua Ka Asar

دونوں بُڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن سےاُف تک نہ کہنا اور اُنھیں نہ جِھڑکنا اور اُن سے  خوبصورت ، نرم بات کہنا اوراُن کے لئے نرم دلی سے عاجِزی کا بازُو  جھکا کر رکھ  اور  دُعا کر کہ اے میرے ربّ تُو اُن دونوں پر رَحم فرما جیسا  اُن دونوں نے  مجھے  بچپن میں پالا۔

بَیان  کردہ  آیاتِ مُبارَکہ کے تحت حضرت علّامہ مَولانا سَیِّدْ مُفتی محمد نعیمُ الدِّین مُرادآبادی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : جب والِدَین پر ضُعْف  ( کمزوری ) کا غَلَبہ ہو ، اَعضاء میں قُوَّت نہ رہے اور جیسا  تُو بچپن میں اُن کے پاس بے طاقت تھا ایسے ہی وہ آخرِ عُمْر میں تیرے پاس ناتُواں ( کمزور ) رہ جائیں۔تو کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکالنا جس سے یہ سمجھا جائے کہ اُن کی طرف سے طبیعت پرکچھ گِرانی ( بوجھ )  ہے۔ نہ اُنہیں جِھڑکنا نہ تیز آواز سے بات کرنا بلکہ کمالِ حُسْنِ اَدب ( نہایت اچھے ادب ) کے ساتھ ماں باپ سے اِس طرح کلام کر جیسے غُلام و خادِم ( اپنے ) آقا سے کرتا ہے۔اُن سے نَرمی و تَواضُع سے پیش آ ، اور اُن کے ساتھ تھکے وَقْت میں شَفقت و مَحَبَّت کا برتاؤ کر کہ اُنہوں نے تیری مجبوری کے وَقْت تجھے مَحَبَّت سے پَروَرِش کیا تھا اور جو چیز اُنہیں دَرکار ہو وہ اُن پر خَرْچ کرنے میں دَرَیغ ( بُخل ) نہ کر۔مُدَّعا  ( مطلب ) یہ ہے کہ دنیا میں بہتر سُلُوک اور خدمت میں کتنا بھی مُبالَغَہ کیا جائے لیکن والِدَین کے اِحسان کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔اِس لئے بندے کو چاہئے کہ بارگاہِ اِلٰہی میں اُن پر فَضْل و رَحمت فرمانے کی دُعا کرے اور عَرض کرے کہ یاربّ ! میری خدمتیں اُن کے اِحسان کی جَزا  ( بدلہ ) نہیں ہو سکتیں تُو اُن پر کرم کرکہ اُن کے اِحسان کا بدلہ ہو ۔

پارہ1سُوْرَۂ بَقَرَہ کی آیت نمبر83 کے تحت فرماتے ہیں : والِدَین کے ساتھ اِحسان کے طریقے جو مَرْوِی ہیں وہ یہ ہیں کہ ( 1 ) تَہِ دل ( یعنی سچّے دل ) سے اُن کے ساتھ مَحَبَّت رکھے ( 2 ) رَفتار و گُفتَار میں