Book Name:Naikiyan Chupaye

پھر اس پر ایک بگولا آئے جس میں آگ ہو تو سارا باغ جل جائے۔ اللہ تم سے اسی طرح اپنی آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم غورو فکر کرو۔

 یہ ایک مِثَال ہے ، ہم میں سے ہر ایک اس مثال کو سامنے رکھ کر ، ذرا آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کے متعلق ذرا تَصَوُّر باندھے ، مثلاً ہم تَصَوُّر کریں کہ ہم بُوڑھے ہو چکے ہیں ، اب بازوؤں میں پہلے جیسی طاقت نہیں رہی ، اب زیادہ محنت والا کام نہیں کیا جاتا ، اس حالت میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں ، وہ کما نہیں سکتے ، محنت مزدوری نہیں کر سکتے ، اُن بچوں کی پرورش کا واحِد سہارا ہم ہی ہیں ، ہماری ایک دُکان ہے ، اُسی سے آمدن ہوتی ہے ، سارے اخراجات اسی سے چلتے ہیں ، کمائی کا اَور کوئی ذریعہ نہیں ہے ، سیل مین آتے ہیں ، مال دے جاتے ہیں ، ہم آرام سے بیٹھے مال فروخت کر دیتے ہیں ، نظامِ زِندگی چل رہا ہے ، اچانک ایک رات اُس دکان میں آگ لگتی ہے ، سارا سامان جل کر راکھ ہو جاتا ہے ، آہ ! جینے کا ایک ہی سہارا تھا ، وہ بھی نہ رہا۔

اب اس حالت میں کیسا صدمہ پہنچے گا ؟ کیسی سخت تکلیف ہو گی ؟ رِہ رِہ کر ننھے بچوں کا خیال آئے گا ، رِہ رِہ کر تکلیف ہو گی ، سینے میں غم کا سمندر اُمنڈ آئے گا ، آنسو نکلیں گے ، غم کا کیسا پہاڑ ٹوٹ جائے گا ؟ اب اسی تَصَوُّر کو ذرا آخرت کی طرف موڑ دیجئے ! ہم نے دُنیا میں کئی سال گزارے ، ساری زِندگی نمازیں پڑھتے رہے ، روزے رکھتے رہے ، صدقہ و خیرات کرتے رہے ، اشراق و چاشت اور اَوَّابین کے بھی پابند رہے ، تہجد بھی کبھی نہ چھوڑی ، نفل حج بھی کئے ، عمرے بھی کئے ، نیکیوں پر نیکیاں کرتے چلے گئے ، اپنے طور پر ہم بہت نیک تھے ، اَعْمَال