Book Name:Sharm o Haya Social Media Ka Ghalat Istimal

جیسے مکروہِ تَنْزِیْہِی سے بچنے میں حيا اور کبھی مُباح ( یعنی جائز کام ) جیسے کسی مُباحِ شَرْعی ( یعنی وہ کام جسے شریعت نےجائز قرار دیا ہو اس )  کے کرنے سے حیا۔ ( نزہۃ القاری ، ۱ / ۳۳۴ )

حیاکا ماحول سے تَعَلُّقْ

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! حیا کو عام کرنے میں ماحول اور تربیَت کا بَہُت عمل دَخل ہے۔ حیاکی خوشبو سےمعمورماحول نصیب ہوجانے کی صورت میں حیا کو خوب نِکھار ملتا ہے جبکہ بے حیا لوگوں کی صحبت دل اور نگاہ کی پاکیزگی چھین کر بے شَرْم بنادیتی ہے ، پھر بندہ بے شمار غیر اَخلاقی اور ناجائز کاموں میں مُبتَلا ہوجاتا ہے۔یہ حیا ہی کی نعمت  تو تھی جو بُرائیوں اور گناہوں سے روکتی تھی۔ جب حیا ہی نہ رہی تو اب بُرائی سے کون روکے؟ بَہُت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بدنامی کے خوف سے شرما کر بُرائیاں نہیں کرتے مگر جنہیں بدنامی کی پروا نہیں ہوتی ایسے بے حیا لوگ ہر گناہ کر گزرتے ، اَخلاقیات کی حُدُود توڑ کر بداَخلاقی کے میدان میں اُتر آتے اور انسانيت سے گِرے ہوئے کام کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔جبکہ اللہ والے نہ صرف شرم و حیا کے پیکر ہوتے ہیں بلکہ شرم و حیا ان کی نس نس اور رگ رگ میں سمائی ہوتی ہے۔آئیے ! ترغیب کے لئے اللہ پاک کی عطا سے غیب کی خبریں بتانے والے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیارے صحابی اور تیسرے خلیفہ حضرت  عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی شرم و حیا کا ایک ایمان افروز واقعہ سُنتے ہیں ، چنانچہ

فرشتے بھی حیا کرتے ہیں :

حضرت عائشہ صِدِّیقہ   رَضِیَ اللہُ عَنْہا فرماتی ہیں ، ایک روزبے مثال حُسْن و جمال والے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے مکانِ عالیشان میں  لیٹے ہوئے تھے اور آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ران یا پنڈلی مبارَک سے کپڑا ہٹا ہوا تھا۔اتنے میں امیرُالمؤمنین حضرت ابوبکر صدّیق رَضِیَ اللہُ عَنْہائے اور اُنہوں نے حاضِری کی