Book Name:Sharm o Haya Social Media Ka Ghalat Istimal

فرماتے ہیں : کنواری لڑکی کی جب شادی ہونے والی ہوتی ہے تو اسے گھر کے ایک گوشے میں بٹھادیا جاتا ہے۔ اسے اردو میں مایوں بٹھانا کہا جاتا ہے ، اس زمانہ میں لڑکی بہت ہی شرمیلی ہوتی ہے ، گھر والوں سے بھی شرم کرتی ہے ، کسی سے کُھل کر بات نہیں کرتی ، حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی شرم اس سے بھی زیادہ تھی ، حیا انسان کا خاص جوہر ہے جتنا ایمان قوی ( یعنی مضبوط ہوگا ) اتنی حیا ( بھی ) زیادہ ہوگی۔   ( مرآۃ المناجیح ، ۸ / ۷۳ )

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب !                                            صَلَّی اللہُ  عَلٰی مُحَمَّد

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! جیسے جیسے ہم زمانَۂ رِسالت سے دُور ہوتے جارہے ہیں ، بے عِلْمی و بے شرمی کے سائے مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں۔دیگر بُرائیوں کے ساتھ ساتھ بے پردگی ، بے حیائی اوربدنگاہی کی تباہ کاریوں نے ہمارے معاشَرے کو تباہی و بربادی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے۔

 ” فَقَط دِل کا پردہ ہونا چاہئے “ ایسا کہنا کیسا؟

شَیخِ طریقت ، امیرِاہلسنّت حضرت علامہ  محمد الیاس عطار قادِرِی  دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے سُوال ہوا :  ” فَقَط دل کا پردہ ہونا چاہئے “ اِس کی کیا حقیقت ہے؟اِرْشاد فرمایا : یہ شیطان کا بَہُت بڑا اور بُرا وار ہے اوراِس قول میں اُن قُرآنی آیات کاا ِنکار ہے جن میں ظاہِری جسم کو پردے میں چُھپانے کا حُکم دیا گیا ہے ، مَثَلاً

پارہ22سُوْرَۃُ الْاَحْزاب آیت نمبر33میں فرمایا گیا :

وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى    ( پ۲۲ ، الاحزاب : ۳۳ )

ترجمۂ کنزُالعِرفان : اور اپنے گھروں  میں  ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی