Book Name:Muslman Ki Izzat Kijjiye
( 2 ) : کسی کو طعنہ نہ دو... !
اجتماعی زندگی کے آداب کا دوسرا مدنی پھول بیان کرتے ہوئے اللہ پاک نے فرمایا :
وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ ( پارہ : 26 ، سورۂ حجرات : 11 )
ترجَمہ کنزُ الایمان : اور آپس میں طعنہ نہ کرو۔
تفسیر صراطُ الجنان میں ہے : یعنی زبان یا اِشارے کے ذریعے ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ ، کیونکہ مؤمن ایک جان کی طرح ہیں ، جب کسی مؤمن پر عیب لگایا جائے گا تو گویا اپنے پر ہی عیب لگایا جائے گا۔ ( [1] )
آہ ! اب ہمارے ہاں دوسروں کو طعنے دینے کی وبا بھی بہت عام ہے * کوئی سُنّتیں اپنائے * اپنا اُٹھنا بیٹھنا * چلنا پھرنا * کھانا پینا * پہننا وغیرہ سُنّت کے مطابق کر لے تو اس پر طعنوں کے تِیر برسائے جاتے ہیں * غریب کو غُرْبت کا طعنہ دیا جاتا ہے * کبھی کسی کی ذات کو کمتر سمجھ کر اُس کی ذات کا طعنہ دیا جاتا ہے ( حالانکہ کوئی ذات ذلیل یا کمتر نہیں ، عزّت کا معیار تقویٰ ہے ) * کوئی مزدوری کرتا ہے تو اسے مزدوری کا طعنہ * کوئی ٹھیلہ لگاتا ہے تو اسے ٹھیلہ لگانے کا طعنہ * جس کے ہاں صرف بیٹیاں ہی بیٹیاں ہوں ، بیٹا نہ ہو ، ( حالانکہ بیٹی اللہ پاک کی رحمت ہے ، اس کے باوُجُود ) اسے طعنے دئیے جاتے ہیں۔
رشتوں کا لین دین ہو یا خدانخواستہ طلاق وغیرہ کا معاملہ ہو جائے ، تب تو شیطان خُوب کھل کر کھیلتا اور خُوب طعن و تشنیع کی آفت میں مبتلا کرتا ہے۔
طعن و تشنیع کی مذمت میں 2احادیث
کاش ! ہم اللہ و رسول کی تعلیمات کو سچّے دِل سے عملی طَور پر اپنا لیں... ! ( 1 ) : حضرت ابو