Book Name:Parosi ki Ahmiyat
سے فرمایا : تمہیں کیا چیز اس پر اُبھارتی ہے ( یعنی تم میرے وُضُو کا بقیہ پانی جسموں پر کیوں مل لیتے ہو ) ؟ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کیا : اللہ پاک اور اس کے رسول صَلّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی محبت ( یعنی یارسولَ اللہ صَلّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم ! آپ ہمارے محبوب ہیں ، ہمارے دِلوں کا چین ہیں ، جو پانی آپ کے جسم مبارک سے مَس ہو ، وہ ہمیں پیارا ہے ، اس لئے ہم اس پانی کو جسم پر لگاتے ہیں ) ۔ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا جواب سُن کر سرکارِ مدینہ ، راحتِ قلب و سینہ صَلّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : جسے یہ پسند ہو کہ اللہ و رسول سے محبت کرے یا اللہ و رسول اس سے محبت کریں تو 1 : وہ جب بات کرے تو سچی بات کرے 2 : جب اس کو امانت دی جائے تو امانت داری کرے 3 : اور اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا پڑوس نبھائے۔( [1] )
حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں : مطلب یہ ہے کہ ہمارے غَسَالہ ( یعنی وُضُو کے باقی پانی ) کو بطور تَبَرُّک استعمال کرنا منع یا بےکار نہیں ، بےشک اس سے برکت حاصِل ہوتی ہے مگر اللہ پاک اور اس کے رسول صَلّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی محبت کے لئے صِرْف یہ عَمَل کافی نہیں ہے ، اللہ و رسول کی محبت کے لئے ان کی اطاعت و فرمانبرداری بھی ضروری ہے۔ مفتی صاحب رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں : یہ 3 کام ( 1 : ہمیشہ سچ بولنا2 : امانت ادا کرنا اور3 : پڑوسی کے ساتھ نیک سلوک کرنا ، یہ تینوں کام ) مُعَاملات کی درستی کی جڑ ہیں ، اس لئے حُضُور صَلّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے ان 3 کا ذِکْر فرمایا۔ جو مسلمان معاملات دُرُست کر لے گا ، اسے عبادات دُرُست کرنا آسان ہو گا اور معاملات میں سچی زبان ، ہر قسم کی امانت کی ادائیگی ، اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک