Book Name:Sirat e Mustaqeem Kisay Kehtay Hai
قرآنِ کریم ہمیں حکم دیتا ہے کہ ان کے رستے پر چل پڑو ! یہی صِراطِ مستقیم ہے ، اسی رستے پر چلنے سے اللہ پاک کا قُرْب نصیب ہوتا ہے۔
آل و اصحاب سے محبّت ہے اور سب اولیا سے الفت ہے
یہ سب اللہ کی عنایت ہے مل گئی مصطفےٰ کی اُمّت ہے
غوث و خواجہ کی دِل میں الفت ہے قلب میں عشقِ اعلیٰ حضرت ہے
مرحبا ! اپنی خوب قسمت ہے پیر و مرشد کی دِل میں چاہت ہے ( [1] )
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّد
صراطِ مستقیم ایک نصابِ زِندگی ہے
پیارے اسلامی بھائیو ! اب یہاں ایک اور بات سمجھنے کی ہے ، وہ یہ کہ صراطِ مستقیم کسی ایک نظریے کا نام نہیں ہے بلکہ صِراطِ مستقیم ایک پُورا نِصَابِ زندگی ہے ، ہماری پیدائش سے لے کر مرنے تک زندگی کے ایک ایک لمحے کا جو نصاب اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ عَلیہ وَآلہٖ و َسَلَّم نے ہمارے لئے منتخب فرمایا ، اس نصاب کو صراطِ مستقیم کہتے ہیں۔حضرت جابِر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہ عنہما صراطِ مستقیم کا ایک معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اَلْاِسْلَامُ ہُوَ اَوْسَعُ مِمَّا بَیْنَ السَّمَاءِ وَ الْاَرْضِ یعنی ( صِراطِ مستقیم سے مراد ) اسلام ہے جو زمین و آسمان سے زیادہ وسیع ہے۔ ( [2] )
معلوم ہوا کہ قرآنی دُعا : اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ ( ۵ ) کے معنیٰ میں بہت وُسْعت ہے ، ہم جس حال اور جس کیفیت میں ہوں ، اسی میں ہم یہ دُعا کر سکتے ہیں مثلاً * جو بندہ نماز پڑھنے کھڑا ہو اہے وہ کہے : اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ ( ۵ ) اب اس کا معنی بنے گا : مولیٰ ! ایسی نماز پڑھنے