Book Name:Sirat e Mustaqeem Kisay Kehtay Hai
سُورۂ فاتحہ ، آیت : 7
پیارے اسلامی بھائیو ! سورۂ فَاتِحَہ میں مزید ارشاد ہوا :
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠ ( ۷ ) ( پارہ : 1 ، سورۂ فاتحہ : 7 )
تَرجَمہ کَنْزُ الْعِرْفان : نہ کہ ان کا راستہ جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔
مفسرینِ کرام فرماتے ہیں : انعام یافتہ لوگوں کی 3 قسمیں ہیں : ( 1 ) : ایک وہ انعام یافتہ بندے جن پر اللہ پاک کا انعام تو ہوا ، وہ ہدایت کے رستے پر چل بھی پڑے لیکن وہ منزل پر پہنچے نہیں ، انہوں نے ایسی خطائیں کیں کہ ان پر ربّ کا غضب برس پڑا ، جیسے شیطان ہے ، اس بدبخت نے ہزاروں سال اللہ پاک کی عبادت کی لیکن اس پر ثابِت قدم نہ رہا ، اس نے تکَبُّر کیا ، اللہ پاک کے نبی حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام کی گستاخی کی تو اس پر اللہ پاک کا غضب برس پڑا ، ایسے ہی اور بہت لوگ ہیں ، بلعم بن باعُورا ، اِبْنِ سَقَا وغیرہ انہیں ہدایت ملی ، ایمان نصیب ہوا مگر یہ ثابِت قدم نہ رہے ، ایمان سے پِھر کر اللہ پاک کے غضب کا شکار ہو گئے ، یہ مَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ ہیں۔ ( 2 ) : انعام یافتہ بندوں میں دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن پر اِنْعَام تو ہوا ، ان کے پاس ہدایت بھی آئی ، رسول بھی تشریف لائے ، ان کو ہدایت قبول کرنے کے مواقع بھی فراہَم کئے گئے مگر یہ راستے ہی میں رہ گئے ، انہوں نے جان بوجھ کر حق کا رستہ یا تو اختیار ہی نہ کیا ، بُرے رستے پر چلے یا سیدھے رستے پر چل تو پڑے مگر چلتے چلتے راستے میں انہوں نے یُوٹَرْن لے لیا ، کسی اور رستے کے مُسَافِر بن گئے۔ یہ ضَالِّیْن ہیں۔ ( 3 ) : تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن پر اِنْعَام ہوا ، وہ صراطِ مستقیم پر چلے اور اِسْتِقَامت کے ساتھ چلتے رہے ، نہ بھٹکے ، نہ غضب کا شکار ہوئے بلکہ صراطِ مستقیم پر چلتے