Book Name:Sirat e Mustaqeem Kisay Kehtay Hai

جگہ پر پہنچ جاؤ گے۔ اب بتانے والے نے راستہ بالکل درست بتایا ، اگر میں اس راستے پر چلوں تو اپنی منزل پر پہنچ جاؤں گا ، لیکن مسئلہ یہ ہےکہ  میں اُس شہر میں نیا ہوں ، میں نے وہ گلیاں دیکھی نہیں ہیں ،  ہو سکتا ہے  کہ بتانے والے نے جہاں  سے دائیں مڑنے  کا کہا تھا ،  میں بائیں  مڑ جاؤں ،  اگر ایسا ہوا تو میں اپنی منزل پر پہنچ نہیں پاؤں گا ، یُوں اس انداز سے راستہ بتانے میں بھٹکنے کا اندیشہ ہے۔ اب فرض کیجئے ! راستہ بتانے والا یُوں راستہ نہیں بتاتا بلکہ وہ کہتا ہے : میں اُسی جگہ جا رہا ہوں ، جہاں تم نے جانا ہے ، میرے پیچھے پیچھے آ جاؤ !

اب اگرچہ میں نے وہ گلیاں دیکھی نہیں ہیں لیکن اس صُورت میں بھٹکنے کا اندیشہ نہیں رہے گا  کیونکہ اب میں جس کے پیچھے چل رہا ہوں ، وہ وہیں کا رہنے والا ہے ، اس نے گلیاں دیکھی ہوئی ہیں۔ اس لئے بھٹکنے کا اندیشہ نہیں  رہے گا۔

ایسے ہی اللہ پاک نے  ہمیں اپنے قُرْب کے رستے پر چلنے کے لئے یہی فرمایا کہ جو ہمارے اِنْعَام یافتہ بندے ہیں ، ان کے پیچھے پیچھے چل پڑو ! کیوں ؟ اس لئے کہ  صراط ِمستقیم  وہ راستہ ہے  جس میں  دشواریاں بہت ہیں ، اس راستے پر شیطان بھی جگہ جگہ اپنے جال بچھائے بیٹھا ہے ، نفسِ اَمَّارہ  ( یعنی بُرائیوں پر اُبھارنے والا نفس )  بھی لمحہ لمحہ چالیں چلتا ہے ، اِس راستے پر  بھٹکنے کے اندیشے بہت ہیں ، اس لئے قرآنِ کریم نے ہمیں پختہ ہدایت دی تاکہ بھٹکنے کا اندیشہ نہ رہے اور فرمایا :

وَّ اتَّبِـعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّۚ    ( پارہ : 21 ، سورۂ لقمان : 15 )

تَرجَمہ کَنْزُ الْعِرْفان : اور میری طرف رجوع کرنے والے آدمی کے راستے پر چل ۔

یہ قرآنی حکم ہے ، جو اللہ پاک کے رستے پر چلنے والے ہیں ، اللہ پاک کی طرف رجُوع لانے والے ہیں ، یہ کون ؟ انبیائے کرام ، صحابۂ کرام ، اَہْلِ بیتِ اطہار ، اولیائے کرام ،