Book Name:Faizan e Imam Azam

وقارصَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَمیری عِیادت کے لئے تشریف لائے  اوردیکھ کرفرمایا ! تمہیں اس بیماری سے کوئی حَرج نہیں ہو گا ، لیکن تمہاری اُس وَقْت کیا حالت ہو گی جب تم میرے وِصال کے بعد طویل عُمر گُزار کر نابینا ہو جاؤ گے ؟ یہ سُن کرمیں نے عرض کی : یارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! میں اس وَقْت حُصُولِ ثواب کی خاطِرصبر کروں گا۔ فرمایا : اگر تم ایسا کروگے توبِغیر حِساب کے جنَّت میں داخِل ہو جاؤ گے۔ چُنانچِہ  نبی کریم  صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ظاہِری وِصال کے بعداُن کی بینائی جاتی رہی ، پھر ایک عرصہ کے بعد اللہ پاک نے ان کی بینائی لوٹا دی اور ان کا انتِقال ہو گیا۔ ( دلائل النبوۃ للبیھقی ، ج۶ص۴۷۹ )

علمِ غیبِ ذاتی اور عطائی میں فرق !

 پیارے اسلامی بھائیو ! اس روایت کو سُن کر  ہوسکتا ہے کہ شیطان کسی کے دل میں یہ وَسْوَسَہ ڈالے کے غَیْب کا علم تو صِرف اللہ پاک ہی کو ہے ، تو آپ صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَنے کیسے غَیْب کی خبر دےدی ؟ تو عرض یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہاللہ پاک عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہادَۃ ہے ، اس کا علمِ غیب ذاتی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ سے ہے ، جبکہ ا نبِیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلام اور اولیائےعِظام رَحِمَہُمُ اللہُ السّلام کا علمِ غیب عَطائی بھی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ سے بھی نہیں۔ انہیں جب سے اللہ  پاک نے بتایا تب سے ہے اور جتنا بتایا اُتنا ہی ہے ، اِس کے بتائے بغیرایک ذرّہ کا بھی علم  نہیں۔اب رہا یہ کہ کس کو کتنا علمِ غیب مِلا ، یہ دینے والا جانے اور لینے والا جانے۔ علمِ غیبِ مُصْطفےٰ صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں پارہ 30 سُوۡرَۂ تَکۡوِیۡرآیت نمبر 24میں ارشاد ہوتا ہے :

وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍۚ(۲۴)   ( پ۳۰ ، التکویر : ۲۴ )  

تَرْجَمَۂ کنز العرفان : اور یہ نبی غیب بتانے پر ہرگز  بخیل نہیں۔

  اِس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیرِخازن میں ہے : مراد یہ ہے کہ مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ