Book Name:Faizan e Imam Azam

فرمادی۔مگراَفْسوس ! صَدْ اَفْسوس ! ہمارے مُعاشَرے میں بُھولے  سے نہیں بلکہ جان بُوجھ کر ، جُھوٹی قسمیں کھا کر ، عَیْب چُھپاکر چیزیں فروخت کی جاتی ہیں ۔ ہماری اَخْلاقی حالت تو اس قدر  گِر چکی ہے کہ اگر ہمارا بچہ جُھوٹ بول کر یادھوکہ دے کر کسی کو لُوٹنے میں کامیاب ہوجائے ، توہم اُسے ایک شاندار کارنامہ سمجھتے ہیں ، اس پر بچے کو شاباش دیتے ہیں ، اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں اور دادِ تحسین دیتے ہوئے اس قسم کے جُملے کہتے ہیں کہ بیٹا اب تم بھی سیکھ گئے ہو ، تمہیں کاروبار کرنا آگیا ہے ، تم سمجھدار ہوگئے ہو وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ ایسے موقعے پر تو ہمیں اپنے بچے کی  تربیت کرنی چاہئے کہ بیٹا جُھوٹ بول کر اور دھوکہ دے کر کاروبار نہیں کرنا چاہئے ، وَرنہ اس کے وَبال سے ہمارے کاروبار ومال میں زَوال آجائے گا اور ہم تباہ و بَرباد ہوجائیں گے اور آخرت میں بھی  ذلیل ورسوا ہوکرکہیں عذابِ الہٰی کے حقدار نہ ہو جائیں۔دھوکہ دینے والے کو اس حدیثِ پاک پر بھی غور کرنا چاہیے کہ  رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےفرمایا : لا يُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ حَتّٰى يُحِبَّ لِاَخِيْهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهٖ یعنی تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا ، جب تک اپنے بھائی کے لئے وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ ( [1] )  توبھلا وہ کون  شخص ہوگا  جواپنے لئے یہ پَسند کرے گا کہ مجھے مِلاوَٹ والا مال ملے ، مجھے دھوکہ دے کر  یا جُھوٹ بول کر مال دیا جائے ، مجھ سے  سُود لیا جائے ، مجھ سے رِشْوت لی جائے ، میرے بَھولے پَن کا فائدہ اُٹھا کر میری جیب خالی کردی جائے ؟ یقیناً  کوئی شخص اپنے لئے یہ باتیں پسند نہیں کرے گا ، تو پھر اپنے مُسلمان بھائیوں کے لئے ایسا کیوں سوچا جاتا ہے ؟

جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں !

 حضرتِ  ابُوہُرَیْرہ رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت ، شہنشاہِ نُـبُوّت صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ


 

 



[1]…بخاری ، کتاب الایمان ، باب من الایمان ان یحب لاخیه  مایحب لنفسه ، ۱ / ۱۶ ، حدیث : ۱۳