Book Name:Behtreen Khatakar Kon

بڑھاؤں گا جبکہ  گُنَاہ ایک ہی لکھا جائے گا اور اسے میں مٹا بھی دُوں گا۔ حضرت آدم علیہ السَّلَام   نے پھر عرض کیا : مولیٰ ! مزید کرم فرما۔اللہ پاک نے فرمایا : اے آدم ! جب تک رُوح انسان کے بدن میں رہے گی ، میں اس کی توبہ قبول کرتا رہوں گا۔([1])

سُبْحٰنَ اللہ ! پیارے اسلامی بھائیو ! ہمارا پاک پروردگار کتنا کریم ، کتنا رحیم ہے ، لہٰذا جب بھی گُنَاہ ہو جائے تو رَبِّ کریم کے حُضُور حاضِر ہو جائیں ، توبہ کریں ، اپنی غلطی کا اِقْرَار کر کے شرمندہ ہوں ، اِنْ شَآءَ اللہ الْکَرِیْم ! توبہ قبول ہو گی اور گُنَاہوں کی میل سے دامَن صاف ہو جائے گا۔

توبہ کی برکت فوراً ظاہر ہوئی

حضرت حبیب عجمی رَحمۃُ اللہ علیہ بہت بڑے ولئ کامِل ہوئے ہیں ، شہرِ بصرہ کے رہنے والے تھے ، توبہ کرنے سے پہلے آپ بہت امیر تھے اور لوگوں کو سُود پر قرضے دیا کرتے تھے ، حال ایسا تھا کہ جب کسی مقروض سے قرضے کی رقم واپس لینے جاتے اور وہ نہ دے پاتا تو اس سے اپنا وقت ضائع ہونے کا جُرمانہ بھی وُصُول کیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ آپ کسی مقروض کے ہاں پہنچے ، دروازے پر دستک دی ، وہ مقروض خود تو گھر پر موجود نہیں تھا ، البتہ اس کی بیوی نے کہا کہ میرا شوہر تو گھر پر نہیں ہے ، نہ ہی میرے پاس رقم ہے جو آپ کو دے دوں ، البتہ آج ہم نے بکری ذَبح کی تھی ، اس کا سارا گوشت ختم ہو چکا ہے ، سَر باقی ہے ، وہ لینا چاہیں تو لے لیں ، حبیب عجمی( رَحمۃُ اللہ علیہ ) نے بکری کا سَر لیا اور گھر آ گئے ، زوجہ کو کہا : اسے پکاؤ ! زوجہ بولی : گھر میں نہ لکڑیاں ہیں ، نہ دوسرا راشن ، چنانچہ آپ لکڑیاں وغیرہ بھی مقروضوں کے ہی گھر سے لے آئے ، زوجہ نے ہانڈی بنائی ، ابھی کھانا تیار بھی نہیں ہوا


 

 



[1]...تَنْبِیْهُ الْغَافِلین ، باب التوبہ ، صفحہ : 52۔