Book Name:Nafarmani Ka Anjam

پکڑیں۔

آہ ! ذرا سوچئے تو سہی ! اگر یونہی گُنَاہ کرتے کرتے قبر میں اُتَر گئے ، اللہ نہ کرے اگر گُنَاہوں پر گرفت ہو گئی ، ہائے ہائے ! اگر عذاب مُسَلَّط کر دیا گیا ، اگر سانپ بچھوؤں نے  کفن پھاڑ کر ہمارے جسم پر قبضہ جما لیا ،  قبر کی دیواریں ملنے سے پسلیاں ٹوٹ پھوٹ کر ایک دوسرے میں پیوست ہو گئیں تو ہمارا کیا بنے گا ؟  آہ ! آج معمولی چوٹ بھی برداشت نہیں ہوتی ، اگر قبر میں فرشتوں نے ہتھوڑے برسانے شروع کر دئیے تو کہاں جائیں گے ، ایسی ہولناک تکلیفیں کیسے برداشت کر پائیں گے ؟  ذرا ٹھنڈے دِل سے نافرمانیوں کے اس بھیانک انجام کا تصور تو باندھئے ! غور تو کیجئے ! کیا عذابِ قبر کا سوچ کر ہی دِل دَہل نہیں جاتا ؟ کیا کلیجہ منہ کو نہیں آتا ؟ آتا ہے ، دِل خوف سے کانپنے بھی لگتا ہے۔ اب فیصلہ کیجئے کہ آج گُنَاہ چھوڑ کر اللہ پاک کی فرمانبرداری میں لگ جانا آسان ہے یا قبر میں ان عذابات  سے دوچار ہونا آسان ہے ؟ یقیناً ہم میں سے کوئی بھی قبر و آخرت کے عذابات کی تاب نہیں رکھتا۔ لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ ہم آج ہی توبہ کر لیں ، ابھی وقت ہے ، ابھی ہم اس دُنیا میں ہیں ، سانسیں چل رہی ہیں ، اللہ پاک نے ہمیں مہلت عطا فرمائی ہے ، توبہ کا دروازہ بھی کھلا ہے ، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم آج ہی گُنَاہوں سے پکی سچی توبہ کریں اور اللہ پاک کی نافرمانیاں چھوڑ کر اللہ و رسول  ( صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ آلِهٖ وَ سَلَّم )  کی رضا والے کاموں میں لگ جائیں۔

صحابئ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰهُ عَنْه فرماتے ہیں :  اے گنہگار ! تُو گُنَاہ کے بُرے انجام سے کیوں بےخوف ہے ؟ ہاں ! ہاں ! گُنَاہ کی تلاش میں رہنا گُنَاہ کرنے سے بھی سخت ہے۔ تیرا کراماً کاتبین یعنی اَعْمَال لکھنے والے فرشتوں سے حیا نہ کرنا اور گُنَاہ پر قائِم رہنا