Book Name:Sadqa Ke Fazail o Adaab

دعویٰ کرے ، نہ ہی اپنے دِل میں یہ خیال لائے کہ میں اس چیز کا مالِک ہوں۔

علّامہ ابو الحسن شاذلی رَحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کسی شئے کے متعلق ملکیت کا دعویٰ کرنے اور دِل میں اس کی ملکیت کا خیال لانے سے بچو ! کیونکہ جو بندہ ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے ، وہ  ( کامِل )  مُؤمِن نہیں ، اللہ پاک فرماتا ہے :

اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ   ( پارہ : 11 ، سورۂ توبہ : 111 )

ترجمہ کَنْزُ الایمان : بے شک اللہ نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خرید لئے ہیں۔

معلوم ہوا؛ ہر مُؤمِن کا مال اور اس کی جان اللہ پاک کی ملکیت ہے ، لہٰذا کوئی مُؤمِن اپنی کسی چیز میں ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ ( [1] )  

صدقے کوقرض کیوں کہا گیا ؟

پیارے اسلامی بھائیو ! ایک مِثَال ہے؛بالفرض ہمارا کوئی عزیز ، کوئی دوست وغیرہ اپنا مال بطورِ امانت ہمارے پاس رکھوائے اور کہے کہ ضرورت ہو تو اسے استعمال بھی کر لینا ، پِھر وہ ہمیں کہے : میں فُلاں شخص کو بھیج رہا ہوں ، میرے مال سے اتنی رقم اسے دے دو ! کیا ہم اِنْکار کریں گے ؟ کیا ہمارا اِنْکار کرنا درست ہو گا ؟ نہیں... ! !  ہرگز درست نہیں ہو گا۔

پھر ذرا غور فرمائیں؛ ہمارے پاس جو مال ہے ، یہ ہمارا نہیں ہے ، اللہ پاک کا ہے ، وہی اس کا خالِق ہے ، وہی مالِک ہے ، ہمیں اُس نے عطا فرمایا ، ہم اس مال کے مُعَاملے میں اللہ پاک کے اَحْکام کے پابند ہیں ، وہ حکم دے : اس میں سےاڑھائی فیصد ( 2.5٪ )  زکوٰۃ دے دو ! ہم زکوٰۃ دے دیں گے ، اس کا حکم ہو کہ فِطْرہ ادا کر دو ! ہم فطرہ ادا کر دیں گے۔ وہ جو حکم فرمائے ، ہم کرنے کے پابند ہیں لیکن اللہ پاک کی کرم نوازیاں دیکھئے ! مال اللہ پاک کا


 

 



[1]...اَلْاَنْوَارُ الْقُدْسِیَّۃ فی بیان آداب العبودیہ ، صفحہ : 31 خلاصۃً۔