Book Name:Agle Pichhlon Ko Naseehat

مرتے جاتے ہیں ہزاروں آدمی                                                    عاقِل و نادان آخر موت ہے

بارہا عِلمی تجھے سمجھا چکے                                                                                                      مان یا مت مان آخر موت ہے

اَہْلِ تقویٰ اور موت کی تیاری

ہمارے اسلاف  ( یعنی اللہ پاک کے نیک بندے جو متقی تھے ، پرہیز گار تھے )  انہیں بَس قبر و آخرت کی فِکْر رہتی تھی اور یہ ہر وقت موت کی تیاری میں ہی مَصْرُوف رہا کرتے تھے۔ * خواجہ سِرِّی سَقطی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  98 سال دُنیا میں تشریف فرما رہے ، نزع کے وقت کے عِلاوہ کسی نے آپ کو کبھی لیٹے ہوئے نہ دیکھا ، ہمیشہ عبادت کیا کرتے * محمد  جریری رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ ایک سال مکہ مکرمہ میں رہے ، نہ سوئے ، نہ پیٹھ سیدھی کی ، نہ پاؤں پھیلائے * اویس قرنی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ   نمازِ فجر پڑھ کر ذِکْرُ اللہ شروع کرتے ، ظہر ہو جاتی ، ظہر کے بعد پھر ذِکْرِ اِلٰہی میں مَصْرُوف ہوتے ، یہاں تک کہ عصر ہو جاتی ، عصر سے مغرب تک ، مغرب سے عشا تک ، عشاسے پھر فجر تک بیٹھے ذِکْرُ اللہ ہی کرتے رہتے * حضرت ابو بکر عیاش رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  روزانہ 30 ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھتے ، روزانہ 500 نوافل پڑھتے ، دِن میں کئی کئی ختمِ قرآن کیا کرتے * امام اعظم ، امام ابو حنیفہ رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  نے 40 سال عشا کے وُضو سے فجر کی نماز ادا کی ، ہر رات 2 رکعت میں قرآنِ کریم ختم کیا کرتے۔ ( [1] )

اندازہ کیجئے ! یہ اللہ پاک کے نیک بندے کیسے ہر وقت بس نیک کاموں ہی میں مَصْرُوف رہا کرتے تھے ؟ انہیں آخرت کی فِکْر تھی ، یہ موت اور قبر و آخرت کو یاد کرنے والے تھے۔ کاش ! ہم بھی اَہْلِ تقویٰ والے اَوْصاف اپنا لیں۔ کاش ! ہمیں بھی موت کی


 

 



[1]...جواہِرُ البیان ، صفحہ : 32-33ملتقطاً۔