Book Name:Agle Pichhlon Ko Naseehat

ہیں جسے موت آئے گی  ( یعنی آپ سے پہلے بھی کئی بادشاہ ہو چکے ہیں ) ۔ یہ سُن کر حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  رونے لگے ، پھر فرمایا : اور نصیحت کیجئے ! حضرت یزید رقّاشی  رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  نے کہا : آپ سے لے کر حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام  تک آپ کے جتنے آباء و اَجْداد ہیں ، ان میں سے کوئی بھی اب  ( یعنی باپ )   زندہ نہیں ہے۔حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  پھر روئے اور فرمایا : مزید نصیحت کرو !  حضرت یزید رقّاشی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  نے کہا : جنّت اور دوزخ کے درمیان کوئی منزل نہیں ہے  ( یعنی ہمارا ٹھکانا یا تو جہنّم ہے یا جنّت ہے ، اس کے سِوا اور کوئی جگہ نہیں ) ۔ یہ بات سُن کر تو حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  پر خوفِ خُدا خُوب غالِب آیا اور آپ بےہوش ہو کر زمین پر تشریف لے آئے۔ ( [1] )

 اے عاشقانِ رسول ! دیکھئے ! کیسا  خوفِ خُدا ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  خلیفہ تھے ، آپ کے پاس حکومت تھی ، تاج و تخت تھا ، اختیارات تھے ، یہ وہ چیزیں ہیں جو عُمُوماً لوگوں کو سرکش بنا دیتی ہیں ، حکومت ، عہدہ ، اختیارات مِل جائیں تو لوگ گُنَاہوں پر دلیر ہو جاتے ہیں لیکن حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  خلیفہ بننے سے پہلے بھی متقی تھے ، خلیفہ بننے کے بعد بھی متقی ہی رہے ، آپ نے اپنے دورِ حکومت میں ظلم نہیں کیا ، لوگوں کے حقوق پامال نہیں کئے بلکہ عدل و انصاف قائِم کیا ، کیوں ؟ اس لئے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  بہت زیادہ خوفِ خدا والے تھے۔

خوفِ خُدا کیسے ملے ؟

معلوم ہوا گُنَاہوں سے بچنے اور تقویٰ حاصِل کرنے کے لئے خوفِ خُدا بہت ضروری


 

 



[1]...تنبیہ المغترین ، صفحہ : 49۔