Book Name:Rozay Ki Hikmatein

مَشَقَّت والی عِبادت ایک دَم اس اُمَّت پر فرض کر دی جائے ، لہٰذا اللہ پاک نے اپنی حکمتِ کامِلہ سے یہ انداز اختیار فرمایا کہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام  سے لے کر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام  تک ہر مَذْہَب ومِلّت میں روزہ فرض قرار دیا گیا تاکہ جب محبوبِ رَبِّ اکبر ، دوجہاں کے سرور  صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کے نازوں پَلے غُلاموں پر یہ عبادت فرض کرنے کی باری آئے تو وہ پچھلی اُمّتوں کا حال سُن کر بے تکلف روزہ رکھیں اور انہیں مشقت اور پریشانی نہ ہو۔ ( [1] )   

اللہ ! اللہ ! یہ کیسی عظیم کرم نوازی ہے۔ پچھلی اُمّتوں پر روزے فرض تھے ، انہوں نے روزے رکھے ، ان کو اس کے جو فوائد ملے وہ اپنی جگہ ، البتہ ! اُن پر روزہ فرض کرنے کی ایک حکمت یہ تھی کہ جب باری آئے گی محبوب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کے غُلاموں کی تو اُن کو ڈھارس دی جائے گی کہ دیکھو ! تم سے پہلو ں نے روزہ  رکھا ، انہیں اس کےایسے ایسے فوائد ملے ، لہٰذا تم بھی رکھو... ! !  

روزہ دارو ! جھوم جاؤ کیونکہ دیدارِ خدا                             خُلْد میں ہوگا تمہیں یہ وعدۂ رحمٰن ہے

 ( 3 ) : فرض روزے بَس چند دِن کے لئے ہیں

پھر ایک اور اعتبار سے اللہ پاک کی عنایت ومہربانی مُلاحظہ کیجئے ! ارشاد ہوا :

اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍؕ     ( پارہ2 ، سورۂ بقرہ : 184 )

ترجمہ کنز الایمان : گنتی کے دن ہیں۔

مولانامفتی نقی علی خان رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : یہ الفاظ بھی اللہ پاک کی کمال عنایت کی دلیل ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ رَحْمٰن ورَحیم کو انتہا سے زیادہ اس اُمَّت کی دِل جُوئی منظور ہے۔ اس بات کو ایک مِثَال سے سمجھئے ! بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے ، والِد صاحب پہلی


 

 



[1]...جواہر البیان ، صفحہ : 86بتغیر قلیل۔