Book Name:Namaz Ki Ahmiyat

نے بڑے بڑے سفر کئے اور سفر کی تکلیفیں برداشت کیں مگر ہمیشہ جماعت کے ساتھ ہی نماز ادا فرمائی۔آئیے ! اس ضمن میں آپرَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کاایک  ایمان افروز واقعہ سنتے ہیں ، چنانچہ

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ  عَلَیْہ کی نمازسےمَحَبَّت

باون ( 52 ) برس کی عمر میں جب دوسری بار سَفَرِ حج کےلیے روانہ ہوئے ، مَناسکِ حج ( یعنی حج کےاَرکان و اَفعال ) اَدا کرنے کے بعدآپ رَحْمَۃُاللہِ  عَلَیْہ ایسے بیمار ہوئے کہ دو ( 2 ) ماہ سے زیادہ صاحبِ فراش ( یعنی بستر پر ) رہے ، جب کچھ صحتياب  ہوئے تو زیارتِ روضۂ اَنور ( نبیِّ کریم  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کے مزارِمبارک کی زیارت )  کےلیے کمر بستہ ( تیار )  ہوئے اور جَدّہ شریف سے ہوتےہوئے کَشتی  كے ذریعے تین ( 3 ) دن کے بعد رابِغ کے مقام پہنچےاوروہاں سےمدینۃُ الرَّسول ( مدینۂ پاک جانے ) کےلیے اُونٹ کی سُواری کی ، اسی راستے میں جب ” بیرِ شیخ “ پہنچے تومنزِل قریب تھی لیکن فَجْر کا وَقْت تھوڑا رہ گیا تھا۔ اُونٹ والوں نے منزِل ہی پر اُونٹ روکنے کی ٹھانی ( یعنی اِرادہ کیا )  لیکن اس وَقْت تك نمازِ فَجْر کا وَقْت ختم ہونے کا اندیشہ ( خطرہ ) تھا ، سیّدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ  عَلَیْہ یہ صُورتِ حال دیکھ کر اپنے رُفَقَا ( یعنی ساتھیوں ) كے ساتھ وہیں ٹھہرگئے اور قافِلہ چلا گیا۔ آپ  ( رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ ) کے پاس کِرْمِچ ( یعنی مخصوص ٹاٹ کا بنا ہوا ) ڈول تھا مگر رَسی موجود نہیں  تھی  اور کُنواں  بھی گہر ا تھا ، لہٰذا عِمامے باندھ کر پانی نکالا اور وُضو کرکے وَقْت کے اندر نماز  ادافرمائی ۔مگر  اب یہ فکر لاحِق ہوئی کہ طویل ( لمبا ) عرصہ بیمار رہنے کی وجہ سے کمزوری بہت ہوگئی ہے ، اتنے مِیل پیدل كیسے چلیں گے ؟ مُنہ پھیر کر دیکھا تو