Book Name:Ameer e Ahl e Sunnat Ka Ishq e Rasool

منورہ سے واپسی کے وقت آپ کی جو کیفیات تھیں ، ان کا کچھ نقشہ امیرِ اہلسنت نے اپنے اشعار میں یوں کھینچا :   

آہ ! اب وقتِ رخصت ہے آیا ، الوداع تاجدارِ مدینہ !

صدمۂ ہجر کیسے سہوں گا ، الوداع تاجدارِ مدینہ !

کوئے جاناں کی رنگیں فضاؤ ! اے مُعَطَّر مُعَنْبر ہواؤ

لو سلام آخری اب ہمارا الوداع تاجدارِ مدینہ !

کچھ نہ حُسْنِ عَمَل کر سکا ہوں ، نذر چند اشک میں کر رہا ہوں

بس یہی ہے مرا کل اثاثہ الوداع تاجدارِ مدینہ !

آنکھ سے اب ہوا خون جاری ، روح پر بھی ہوا رنج طاری

جلد عطّار کو پھر بلانا الوداع تاجدارِ مدینہ !

اب بھی مدینے کی تمنا  ہے... ! !

 رُکنِ شُوریٰ و نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری سَلَّمہُ البَارِی کا بیان ہے ، فرماتے ہیں : میں الحمد للہ ! کافی عرصے تک نواب شاہ  ( اندرونِ سندھ )  میں مدرسۃ المدینہ بالغان میں پڑھانے کا شرف حاصِل کرتا رہا ہوں۔ ایک دفعہ میں نعت شریف پڑھ رہا تھا ، اس  میں کچھ اس مضمون کا ایک شعر تھا کہ مدینے جائیں ، وہیں رہ جائیں اور دَرِ حبیب پر قِصّہ تمام ہو جائے۔

میرے پاس ایک تاجِر اسلامی بھائی پڑھا کرتے تھے ، نعت خوانی جب ہو گئی تو انہوں نے کہا : میں مدینے گیا ہوں۔اصل میں یہ جذبات  ( کہ میں مدینے جاؤں ، پھر کبھی واپس نہ آؤں