Book Name:Nazool e Quran Ka Aik Maqsid

وَاقعات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں :

 خوفِ خُدا کے سبب غَش کھا کر گِر پڑے

حضرت مِسْعَر بن کِدَام رَحمۃُ اللہ علیہ سے روایت ہے ، ایک روز ہم امامِ اعظم امام ابوحنیفہ رَحمۃُ اللہ علیہ کے ساتھ کہیں سے گزر رہے تھے ، بےخیالی میں امامِ اعظم رَحمۃُ اللہ علیہ کا مبارک پاؤں ایک لڑکے کے پیر پَر پڑگیا ، لڑکے کی چیخ نکل گئی اور اُس کے منہ سے بے ساختہ نکلا : یَا شَیْخُ اَلَا تَخَافُ الْقِصَاصَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یعنی اے بزرگ ! کیا آپ روزِ قیامت لئے جانے والے انتقامِ خُداوندی سے نہیں ڈرتے ؟ بَس اس لڑکے کی یہ بات سننی تھی کہ امامِ اعظم رَحمۃُ اللہ علیہ پر لرزہ طاری ہو گیا اور آپ غَش کھا کر زمین پر تشریف لے آئے۔ ( [1] )  

پیارے اسلامی بھائیو ! اندازہ کیجئے ! امامِ اعظم رَحمۃُ اللہ علیہ کا مبارک پاؤں محض بے خیالی میں اس لڑکے کے پاؤں پر پڑا ، آپ نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا ، اُس لڑکے کی زبان سے بھی بے ساختہ جملہ نکلا مگر اس جملے میں روزِ قیامت بارگاہِ اِلٰہی میں حاضِری کا ذِکْر تھا ، امامِ اعظم رَحمۃُ اللہ علیہ کو جونہی بارگاہِ اِلٰہی میں حاضِری کا خیال آیا ، آپ پر لرزہ طاری ہوا اور غَشْ کھا کر زمین پر تشریف لے آئے۔غور فرمائیے ! جو بندہ اتنا اللہ پاک سے ڈرتا ہو * کیا وہ کسی کی حق تلفی کرے گا ؟ * کیا وہ کسی کو گالیاں دے گا ؟ * کیا وہ کسی کی رقم دبائے گا ؟ * کیا وہ کسی کو ناحق ستائے گا ؟ * کیا وہ دوسروں کی نیند خراب کرے گا ؟ * کیا وہ دوسروں پر کیچڑ اُچھالے گا ؟ ہرگز نہیں بلکہ جو خوفِ خُدا والا ہو گا وہ ہر دَم دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے والا ہو گا۔ معلوم ہوا اگر ہمیں خوفِ خُدا کی نعمت نصیب ہو جائے تو اِنْ شَآءَ اللہ الْکَرِیْم !


 

 



[1]...اشکوں کی برسات ، صفحہ : 17۔