Book Name:Aala Hazrat Aur Khidmat e Quran

لوگوں کے حُسْنِ ظَن پر پورا اترئیے !

پیارے اسلامی بھائیو ! ہم نے سُنا کہ اعلیٰ حضرت  رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے باقاعِدہ ترتیب کے ساتھ پُورا قرآنِ کریم حِفْظ نہیں کیا تھا ، آپ خط دیکھ رہے تھے ، خط لکھنے والے نے اپنی معلومات کے مطابق آپ کے نام کے ساتھ حافِظْ لکھ دیا تو آپ نے صِرْف اس لئے کہ اس کا لکھنا غلط ثابت نہ ہو ، پکّا ارادہ کیا ، وقت نِکالا اور پُوری کوشش کے ساتھ قرآنِ کریم حِفْظ کر لیا۔ اس میں ہمارے لئے سبق ہے ، وہ یہ کہ لوگ ہمارے ساتھ جو اچھی اُمِّیدیں لگاتے ہیں ، ہمارے متعلق اچھا گمان رکھتے ہیں ، ہمیں چاہئے کہ ہم اُن کے گمان پر پُورا اُترنے کی کوشش کیا کریں۔

اسے ریاکاری نہیں کہیں گے ، بلکہ اسے قُدرت کا اِشارہ سمجھنا چاہئے ، صُوفیا فرماتے ہیں : اَلْسِنَۃُ الْخَلْقِ اَقْلَامُ الْحَقّ یعنی مخلوق کی زبان حق کا قلم ہوتی ہے۔ ( [1] )  لوگ خُود کہتے نہیں ہیں ، ان سے کہلوایا جا رہا ہوتا ہے۔ مثلاً * بندہ نمازی نہیں ہے * لوگ پِھر بھی اسے نمازی کہہ رہے ہیں * بندہ روزہ دار نہیں ہے مگر لوگ اسے روزہ دار سمجھ رہے ہیں * بندہ نیک نہیں ہے * گناہوں میں مَصْرُوف رہتا ہے لیکن لوگ اس کے متعلق گمان کرتے ہیں کہ وہ بہت نیک ، پارسا ، راتوں کو عبادت کرنے والا ، متقی ، پرہیز گار ہے تو یہ لوگوں کا اس کے متعلق نیک گمان رکھنا ، قُدْرت کی جانِب سے ایک تنبیہ ہے کہ * ابے بندے ! تُو نمازی نہیں ہے ، نماز بن جا * تُو نیک نہیں ہے ، نیک بن جا * تُو فُلاں نیکی نہیں کرتا ، کِیا کر۔ لہٰذا جب لوگ ہمارے متعلق ایسی نیکی کا گمان رکھتے ہوں ، جو نیکی ہم نہیں کرتے تو


 

 



[1] ... المقاصد الحسنۃ ، صفحہ : 107-108 ، رقم : 164ملتقطًا۔