Book Name:Meraj e Mustafa Mein Seekhnay Ki Baatein
انسان کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی مقام ہوتا تو اُس قُرْبِ خاص میں رسولِ ذیشان صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کو وہی مقام عطا کیا جاتا۔ ( [1] ) ڈاکٹر اِقْبال کہتا ہے :
پَیْشِ اُوْ گِیتی جَبِیْں فَرْسُوْدَہ اَسْت خَوَیْش رَا خُوْد عَبْدُہٗ فَرْمُوْدَہ اَسْت
مفہوم : یہ رسولِ کائنات صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم ہیں ، جن کے حُضُور ساری کائنات نے سَر جھکا دیا۔ اللہ پاک نے خُود آپ کو عَبْدُہٗ ( یعنی خاص الخاص بندہ ) فرمایا ہے۔
عَبْد دِیْگر عَبْدُہٗ چِیْزَے دِگَر مَا سَراپا اِنْتِظَار اُوْ مُنتظِر
مفہوم : یاد رکھو ! عبد ( بندہ ) اَور چیز ہے ، عَبْدُہٗ ( یعنی خاصُ الخاص بندہ ) ہونا کچھ اَور ہی شان ہے۔ عَبْد ( یعنی بندہ ) سراپا انتظار ہوتا ہے مگر عَبْدُہٗ وہ ہے جس کا انتظار کیا جاتا ہے۔
عَبْدُہٗ چَنْد و چَگُوْنِ کَائِنَات عَبْدُہٗ رَازِ دَرُوْنِ کَائنَات ( [2] )
مفہوم : عبدُہٗ ( یعنی خاص الخاص بندہ ) کائنات کی حقیقت ہے ، عَبْدُہٗ اس کائنات کا راز ہے کہ وہ نہ ہوتے تو کائنات بھی نہ ہوتی۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا ، وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی ، جان ہے تو جہان ہے ( [3] )
پیارے اسلامی بھائیو ! یہاں سے ہمیں سبق سیکھنے کو ملا کہ ہم نے اللہ کا بندہ بننا ہے۔ انسان کا پہلا اور آخری رُتبہ یہی ہے۔ لہٰذا اس دُنیا میں آ کر ہم کچھ اور بن سکیں یا نہ بن سکیں ، البتہ صحیح معنوں میں اللہ پاک کے بندے تو بن ہی جانا چاہئے۔ ہم نے صحیح معنوں میں اللہ کا