Book Name:Imam e Azam Ki Mubarak Aadatein
پیارے اسلامی بھائیو! اِمامِ اعظم رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے کعبہ شریف کے کونے سے جو آواز سُنی، اسے الہام کہتے ہیں۔ الہام وہ سچّا عِلْم ہوتا ہے جو اللہ پاک اپنے بندوں کے دِل میں غیب سے ڈالتا ہے اور بعض دفعہ یُوں ہوتا ہے کہ فرشتہ وَلِیُّ اللہ سے کلام کرتا ہے۔([1]) قرآنِ کریم میں ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(۳۰) (پارہ:24، حٰمٓ السَّجْدَۃ:30)
ترجمہ کنزُ العِرْفان:بیشک جنہوں نے کہا: ہمارا ربّ اللہ ہے پھر (اس پر) ثابت قدم رہے، ان پر فرشتے اُترتے ہیں(اور کہتے ہیں) کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنّت پر خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔
اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوا؛ وہ نیک مسلمان جو ایمان لائیں، اس پر اِستقامت اِختیار کریں اور اس کے تقاضوں کو پُورا کریں، ان پر فرشتے نازِل ہوتے ہیں، انہیں خوشخبریاں سُناتے ہیں۔ عُلَمائے کرام نے اس آیت سے اَوْلیائے کرام کے الہام کو ثابِت کیا ہے۔([2])
خیال رہے! وحی جو انبیائے کرام علیہم السَّلَام پر آتی ہے اور الہام جو اولیائے کرام پر کیا جاتا ہے، ان دونوں میں کئی طرح فرق ہے (1): وحی میں شرعی احکام بھی بیان ہوتے ہیں جبکہ الہام جو اَوْلیاء کو ہوتے ہیں، ان میں شرعی احکام نہیں ہوتے، صِرْف خوشخبریاں ہوتی ہیں یا پِھر انہیں کوئی غیب کی بات بتائی جاتی ہے یا بعض دفعہ اَوْلیائے کرام کو کوئی قرآنی