30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیّٖن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط یہ مضمون کتاب ” 550 سنتیں اور آداب “ کے صفحہ 72 تا 90 سے لیا گیا ہے۔107سنتیں اور آداب
دُعائے عطّار: یاربَّ المصطفٰے!جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ” 107 سنّتیں اور آداب “ پڑھ یاسُن لے اُسے اللہ پاک کے سب سے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنّتوں سے محبت اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ماں باپ سمیت اس کی بےحساب مغفرت فرما۔ اٰمین بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صَلی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلمدُرُود شریف کی فضیلت
فرمانِ آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : جس نے مجھ پر ایک مرتبہ دُرودِ پاک پڑھا اللہ پاک اُس پر دس رحمتیں بھیجتا اور اس کے نامَۂ اعمال میں دس نیکیاں لکھتا ہے۔ (ترمذی، 2/28، حدیث: 484) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد”عِیادت کرنا نبیِ کریم کی پیاری پیاری سنّت ہے“کے تینتیس حُرُوف کی نسبت سے عِیادت کی 33 سنّتیں اور آداب
8 فرامینِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم :(1) عُوْدُوا الْمَرِیْضَ ۔ یعنی مریض کی عِیادت کرو۔ (الادب المفرد، ص 137، حدیث: 518) (2) جو شخص کسی مریض کی عِیادت کے لیے جاتا ہے تو اللہ پاک اُس پر پچھتّر ہزار (75,000)فرشتوں کا سایہ کرتا ہے، اُس کے ہر قدم اُٹھانے پر اُس کے لئے ایک نیکی لکھتا ہے، ہر قدم رکھنے پر اُس کا ایک گُناہ مِٹاتا ہے اور ایک دَرَجہ بُلند فرماتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی جگہ پر بیٹھ جائے، جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رَحْمت اُسے ڈھانپ لیتی ہے اور اپنے گھر واپس آنے تک رَحْمت اُسے ڈھانپے رہے گی۔ (معجم اوسط، 3/222، حدیث: 4396 ) (3) جو شخص کسی مریض کی عِیادت کو جاتا ہے توآسمان سے ایک پُکارنے والا پکارتا ہے: تجھے بشارت (یعنی خوشخبری) ہو تیرا چلنا اچھا ہے اور تونے جنّت کی ایک منزل کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔(ابن ماجہ، 2/192، حدیث: 1443 )(4) جو مسلمان کسی مسلمان کی عِیادت کے لیے صُبح کو جائے تو شام تک اُس کے لیے ستّر ہزار (70000) فرشتے اِسْتِغْفار (یعنی بخشش کی دعا) کرتے ہیں اور شام کو جائے تو صُبْح تک ستر ہزار (70000) فرشتے اِسْتِغْفار کرتے ہیں اور اُس کے لیے جنّت میں ایک باغ ہوگا۔(ترمذی، 2/290، حدیث: 971) (5)جس نے اچھے طریقے سے وُضو کیا پھر ثواب کی نیّت سے اپنے مسلمان بھائی کی عِیادت کی تو اُسے جہنّم سے 70 سال کے فاصلے تک دور کردیا جائے گا۔ (ابوداوٗد، 3/248، حدیث: 3097) (6) جب تو مریض کے پاس جائے تو اُس سے کہہ کہ تیرے لیے دُعا کرے کہ اُس کی دُعا فرشتوں کی دُعا کی مانند ہے۔(ابن ماجہ، 2/191، حدیث: 1441 ) (7) مریض جب تک تندُرُست نہ ہو جائے اس کی کوئی دُعا رَد نہیں ہوتی۔ (الترغیب و الترہیب، 4/166، حدیث: 19) (8) جب کوئی مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کو جائے تو 7 بار یہ دُعا پڑھے: اَسْاَلُ اللہ الْعَظِیْمَ،رَبَّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ اَنْ یَّشْفِیَکَ ۔ (1)اگر موت نہیں آئی ہے تو اُسے شِفا ہو جائے گی۔(ابوداوٗد، 3/251، حدیث: 3106) (9) عِیادت کی تعریف : لُغْوِی معنیٰ : بیمار کے پاس جاکر اُس کی مِزاج پُرسی کرنا (یعنی طبیعت پوچھنا) (اردو لغت، 13/604) (10)مریض کی عیادت کرنا سنّت ہے۔ اگر معلوم ہے کہ عِیادت کیلئے جانے سے اُس بیمار پر گِراں (یعنی ناگوار) گزرے گا، ایسی حالت میں عِیادت کیلئے مت جائیے۔ (بہار شریعت، 3/505) (11) اگر مریض سے آپ کے دل میں ناراضی یا طبیعت کو اس سے مُناسَبَت نہیں پھر بھی عِیادت کیجئے(12)اِتّباعِ سُنّت کی نیت سے عِیادت کیجئے ،اگر مَحْض اس لیے بیمار پُرسی (یعنی عیادت) کی کہ جب میں بیمار پڑوں تو وہ بھی میری عِیادت کیلئے آئے تو ثواب نہیں ملے گا (13) کسی کی عیادت کیلئے جائیں اور مرض کی سختی دیکھیں تو اُس کو ڈرانے والی باتیں نہ کریں مثلاً تمہاری حالت خراب ہے اور نہ ہی اِس انداز پر سر ہلائیں جس سے حالت کا خراب ہونا سمجھا جاتا ہے(14) عیادت کے موقع پر مریض یا دُکھی شخص کے سامنے موقع کی مُناسَبَت سے اپنے چہرے پر رَنج و غم کی کیفیت ظاہر کیجئے(15)بات چیت کا انداز ہرگز ایسا نہ ہو کہ مریض یا اُس کے عزیز کو وَسْوَسہ آئے کہ یہ ہماری پریشانی پر خوش ہو رہا ہے (16)مریض کے گھروالوں سے بھی اِظہارِ ہمدردی کیجئے اور جو خدمت یا تعاوُن کر سکتے ہوں کیجئے (17)مریض کے پاس جاکر اُس کی طبیعت پوچھئے اور اُس کے لیے صحت و عافیت کی دُعا کیجئے (18)مُصطَفٰے جانِ رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مُبارک عادت یہ تھی کہ جب کسی مریض کی عِیادت کو تشریف لے جاتے تو یہ فرماتے : لَا بَاْسَ طَھُوْرٌ اِنْ شَاءَاللہ (2) ( بخاری، 2/505، حدیث: 3616) (19)مریض سے اپنے لیے دُعا کروائیے کہ مریض کی دُعا رَد نہیں ہوتی (20) فرمانِ مُصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : مریض کی پوری عیادت یہ ہے کہ اُس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر پوچھے کہ مِزاج کیسا ہے۔( ترمذی ، 4/ 334، حدیث: 2740) (21)حضرتِ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:یعنی جب کوئی شخص کسی بیمار کی مِزاج پُرسی کرنے جاوے تو اپنا ہاتھ اُس کی پیشانی پر رکھے پھر زَبان سے یہ(یعنی آپ کی طبیعت کیسی ہے؟) کہے،اِس سے بیمار کو تسلّی ہوتی ہے، مگر بہت دیر تک ہاتھ نہ رکھے رہے، یہ ہاتھ رکھنا اظہار ِمَحَبَّت کے لیے ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 6/358 ملخصاً) (22)ا گر پیشانی پر ہاتھ رکھنے سے مریض کو تکلیف ہوتی ہو تو ہاتھ مت رکھئے اور اگر مریض اَمْرد ( بلکہ غیرِ اَمْرد بھی) ہو اور ہاتھ رکھنے سے مَعاذَ اللہ ”گندی لذّت‘‘ آتی ہو تو ہاتھ رکھنا گُناہ ہے اور اگر دیکھنے سے ایسا ہوتا ہو تو دیکھنا بھی حرام ہے۔ (23) مریض کے سامنے ایسی باتیں کرنی چاہئیں جو اس کے دل کو بَھلی معلوم ہوں ، بیماری کے فضائل اور اللہ پاک کی رَحمت کے تَذکِرے کیجئے تاکہ اس کا ذِہْن ثوابِ آخِرت کی طرف مائل ہو اور وہ شِکْوَہ و شکایت کے الفاظ زَبان پر نہ لائے (24)عیادت کرتے ہوئے موقع کی مناسَبَت سے مریض کو نیکی کی دعوت بھی پیش کیجئے، خُصُوصاً نماز کی پابندی کا ذِہْن دیجئے کہ بیماریوں میں کئی نمازی بھی نمازوں سے غافل ہو جاتے ہیں (25)مریض کو مَدَنی چینل دیکھنے کی رَغبت دلایئے اور اُس کی برکتوں سے آگاہ کیجئے(26)مریض کو مَدَنی قافلوں میں سفر کی اور خود سفر کے قابل نہ ہو تو اپنی طرف سے گھر کے کسی فرد کو سفر کروانے کی ترغیب دلائیے اور مَدَنی قافلوں کی وہ مَدَنی بہاریں سنایئے جن میں دعاؤں کی بَرَکتوں سے مریض کوشفائیں مِلی ہیں(27)مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھیے اور نہ شور و غُل کیجئے ہاں اگر بیمار خود ہی دیر تک بٹھائے رکھنے کا خواہش مَند ہو تو مُمکنہ صورت میں آپ اُس کے جذبات کااحترام کیجئے(28)بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ مریض یا اُس کے نُمائندے سے ملتے ہیں تو کچھ نہ کچھ علاج بتاتے ہیں اور بعض تو مریض سے اِصْرار کرتے ہیں کہ میں جو علاج بتا رہا ہوں وہ کر لو، فلاں دوا لے لو، ٹھیک ہو جاؤ گے! مریض کو چاہئے کہ ہرکسی کا بتایا ہوا علاج نہ کرے کہ ”نِیم حکیم خطرۂ جان“ کسی کا بتایا ہوا علاج کرنے سے پہلے اپنے طَبِیْب سے مشورہ کر لے۔ خبردار! جو ماہِر طَبِیْب نہ ہونے کے باوجود مریضوں کے علاج میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں وہ گُنہگار ہوتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اور نااَہل (یعنی جو ماہر طبیب نہ ہو اُس) کو اِس (یعنی علاج) میں ہاتھ ڈالنا حرام ہے اور اُس (یعنی علاج میں ہاتھ ڈالنے) کا ترک(یعنی چھوڑدینا) فرض۔(فتاویٰ رضویہ، 24/206) (29) مریض کی عیادت کے موقع پر پھل یا بسکٹ وغیرہ تحفے میں لانا عُمدہ کام ہے مگر نہ لانے کی صورت میں عِیادت ہی نہ کرنا اور دل میں یہ خیال کرنا کہ اگر کچھ نہ لے کر جائے گا تو وہ کیا سوچیں گے کہ خالی ہاتھ عیادت کے لیے آگئے، خالی ہاتھ بھی عیادت کر لینی چاہئے کہ نہ کرنا ثواب سے مَحرومی کا باعث ہے (30)عیادت کے لئے جاتے ہوئے بعض لوگ گُلدستے لے جاتے ہیں ، یہ بھی جائز ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ جس کو دیا عُمُوماً اُس کو کام نہیں آتا ، لہٰذا وہ چیز گِفٹ(GIFT ) میں دی جائے جو کام آئے۔ مشورۃً عرض ہے کہ گلدستے کی جگہ یا اُس کے ساتھ جہاں مُناسب ہو وہاں مکتبۃُ المدینہ کے کچھ رسائل لے جا کر مریض کو پیش کیجئے تاکہ وہ ملاقاتیوں، ( اور اگر اسپتال میں ہو تو) پڑوسی مریضوں اور ان کے عزیزوں کو تحفۃً دے سکیں بلکہ زہے نصیب ! مریض خود بھی کچھ رسائل ہَدِیَّۃً منگوا کر اِس غَرَض سے اپنے پاس رکھ کر ثواب کمائیں لیکن رسائل کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں(31)فاسِق کی عِیادت بھی جائز ہے، کیونکہ عیادت حقوقِ اسلام سے ہے اور فاسِق بھی مُسلم ہے (بہار شریعت ، 3/505) (32)مُرتَد اور کافر حَرْبی کی عیاد ت جائز نہیں۔ ( فی زمانہ دُنیا میں سارے کافر حربی ہیں) (33) بَدمذہب جس کی بَد مذہبی کُفر تک نہ پہنچی ہو اُس کی عیادت کرنا منع ہے۔ صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد”سفید کفن میں کفناؤ“ کے سولہ حُرُوف کی نسبت سے کفن کی 16 سنتیں اور آداب
6 فرامینِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : (1)جو میِّت کو کفن دے تو اس کیلئے میِّت کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔(تاریخ بغداد، 4/263) حضرتِ علامہ عبدُ الرَّء ُوف مُناوِی رحمۃ اللہ علیہ حدیث ِ پاک کے اس حصّے ” جو میِّت کو کفن دے “کے تَحْت فرماتے ہیں : یعنی جس نے اپنے مال سے میِّت کے کفن کا اِنتظام کیا۔(التیسیر بشرح جامع الصغیر، 2/442) (2) جو میِّت کو کفن دے اللہ پاک اسے جنّت کے باریک اور موٹے ریشم کا لباس پہنائے گا (مستدرک، 1/ 690، حدیث: 1380) (3) جو کسی میِّت کو نہلائے ،کفن دے ، خوشبو لگائے، جنازہ اُٹھائے، نماز پڑھے اور جو ناقص بات نظر آئے اُسے چُھپائے وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے جیسا جس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔( ابن ماجہ، 2/201، حدیث: 1462) اس حصَّۂ حدیث ”ناقص بات“ سے مُراد یہ ہے کہ جو بات ظاہر کرنے کے قابل نہ ہو جیسے چہرے کا رنگ سیاہ ہو جانا۔(4)اپنے مُردوں کو اچھا کفن دو کیونکہ وہ اپنی قبروں میں آپس میں ملاقات کرتے اور (اچھے کفن سے) تَفاخُر کرتے (یعنی خوش ہوتے ) ہیں۔ (مسند الفردوس، 1/ 98، حدیث: 317) (5)جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اُسے اچّھا کفن دے۔ (مسلم، ص 470، حدیث: 943)(6)اپنے مُردوں کو سفید کفن دو۔ (ترمذی، 2/301، حدیث: 996)کفن پہنانے کی نیّت
(7) کفن پہنانے کی نیّت: اللہ پاک کی رِضا پانے کے لیے اور اپنی موت کے بعد خود کو پہنائے جانے والے کفن کو یاد کرتے ہوئے ادائے فرض کیلئےمَیِّت کو سنّت کے مطابق کفن پہناؤں گا۔ (8) مَیِّت کو کفن دینا ” فرضِ کفایہ “ہے۔(بہار شریعت، 1/817) یعنی کسی ایک کے دینے سے سب بَرِیُّ الذِّمَّہ ہو گئے(یعنی سب کے سر سے فرض اتر گیا) ورنہ جن جن کو خبر پہنچی تھی اور کفن نہ دیا وہ سب گُناہ گار ہوں گے ۔مَسْنُون کفن
(9) مَرْد کا کفن: (1)لِفافہ یعنی چادر (2)اِزار یعنی تہبند(3)قمیص یعنی کفنی۔ عورت کیلئے ان تین کے ساتھ ساتھ مزید دو یہ ہیں:(4) اوڑھنی (5) سینہ بند۔(فتاویٰ ہندیہ، 1/160) (10) جو نابالغ حدِّ شَہْوَت (3)کو پہنچ گیا وہ بالغ کے حکم میں ہے یعنی بالغ کو کفن میں جتنے کپڑے دیے جاتے ہیں اِسے بھی دیے جائیں اور اس سے چھوٹے لڑکے کو ایک کپڑا اور چھوٹی لڑکی کو دوکپڑے دے سکتے ہیں اور لڑکے کو بھی دو کپڑے دیے جائیں تو اچھا ہے اور بہتر یہ ہے کہ دونوں کو پورا کفن دیں اگرچہ ایک دن کا بچہ ہو۔(بہارِ شریعت،1/819 ) (11) صِرْف عُلَما و مَشائِخ کو باعِمامہ دَفن کیا جاسکتا ہے، عام لوگوں کی مَیِّت کو عِمامے کے ساتھ دفنانا منع ہے۔ (مدَنی وصیّت نامہ ، ص 4) (12) مَرد کے بدن پر ایسی خوشبو لگانا جائز نہیں جس میں زَعفران کی آمیزش (یعنی MIX)ہو،عورت کے لیے(زعفران مِلی ہوئی خوشبو) جائز ہے۔(بہارِ شریعت، 1/861)(13) جس نے احرام باندھا (اور اِسی حالت میں وفات پائی) ہے اُس کے بدن پر بھی خوشبو لگائیں اور اُس کا منہ اور سر کفن سے چھپایا جائے۔ (بہارِ شریعت،1/861)
1…ترجمہ: میں عَظَمَت والے، عرشِ عظیم کے مالِک اللہ پاک سے تیرے لئے شِفا کا سُوال کرتا ہوں۔ 2…ترجمہ: کوئی حَرَج کی بات نہیں اللہ پاک نے چاہا تو یہ مَرض (گُناہوں سے) پاک کرنے والا ہے۔ 3…حدّ ِ شَہْوت لڑکوں میں یہ (ہےکہ )اس کا دل عورتوں کی طرف رَغبت کرے اور لڑکی میں یہ کہ اُسے دیکھ کر مَرد کو اس کی طرف مَیْلان (یعنی خواہش) پیدا ہو اور اس کا اندازہ لڑکوں میں (سن ہجری کے حساب سے ) بارہ سال اور لڑکیوں میں نو برس ہے۔(حاشیَۂ بہار شریعت، 1/819)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع