اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
یہ مضمون کتاب ”550 سنتیں اور آداب “کے مختلف مقا ما ت سے لیا گیا ہے۔
126 سنتیں اور آداب
درود پاک کی فضیلت
ایک نوجوان طَوافِ کعبہ کرتے ہوئے صرف دُرُود شریف ہی پڑھ رہاتھا کسی نے اُس سے کہا:کیا تجھے کوئی اور دُعائے طَواف نہیں آتی یا کوئی اور بات ہے؟ اُس نے کہا : دُعائیں تو آتی ہیں مگر بات یہ ہے کہ میں اور میرے والد دونوں حج کے لئے نکلے تھے ، والد صاحِب راستے میں بیمار ہو کر فوت ہو(یعنی انتقال کر)گئے، اُن کا چہرہ سیاہ پڑگیا ، آنکھیں اُلٹ گئیں اور پیٹ پھول گیا! میں بَہُت رویا اور کہا : اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ جب رات کی تاریکی چھا گئی تو میری آنکھ لگ گئی، میں سوگیا تو میں نے خواب میں سفید لباس میں ملبوس ایک مُعَطّر مُعَطّر حسین و جمیل ہستی کی زِیارت کی۔ اُنہوں نے میرے والدِ مرحوم کی میِّت کے قریب تشریف لاکر اپنا نورانی ہاتھ اُن کے چہرے اور پیٹ پر پھیرا، دیکھتے ہی دیکھتے میرے مرحوم باپ کا چہرہ دودھ سے زِیادہ سفید اور روشن ہوگیا اور پیٹ بھی اَصلی حالت پر آگیا۔ جب وہ بُزرگ واپس جانے لگے تومیں نے اُن کا دامَنِ اَقدَس تھا م لیا اور عرض کی: یاسیِّدی !(یعنی اے میرے سردار! ) آپ کو اُس کی قسم جس نے آپ کو اِس جنگل میں میرے والد مرحوم کے لئے رَحمت بنا کر بھیجا ہے آپ کون ہیں ؟ فرمایا: تو ہمیں نہیں پہچانتا؟ ہم تو مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ) ہیں ، تیرا یہ باپ بَہُت گناہ گار تھا مگر ہم پربکثرت دُرُود شریف پڑھتا تھا، جب اِس پر یہ مصیبت نازِل ہوئی تو اِس نے ہم سے فر یاد کی لہٰذا ہم نے اِس کی
فر یاد رسی کی ہے اور ہم ہر اُس شخص کی فر یاد رسی کرتے ہیں جو اِس دُنیا میں ہم پر زِیادہ دُرُود بھیجتا ہے۔ (روض الریاحین، ص 125)
فریاد اُمَّتی جو کرے حالِ زار میں ممکن نہیں کہ خیر بشر کو خبر نہ ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
”السلام علیکم “کے گیارہ حروف کی نسبت سے
سلام کی 11 سنتیں اور آداب
(1) مسلمان سے ملاقات کرتے وقت اُسے سلام کرنا سنت ہے۔ (اسلامی بہنیں بھی اسلامی بہنوں نیز محارِم کو سلام کریں) (2) ’’ سلام کرتے وَقت دل میں یہ نیت ہو کہ جس کو سلام کرنے لگا ہوں اِس کا مال اور عِزّت و آبرو سب کچھ میری حفاظت میں ہے اور میں ان میں سے کسی چیز میں دَخل اندازی کرنا حرام جانتا ہوں‘‘ ( )(3)دن میں کتنی ہی بار آمنا سامنا ہو، کسی کمرے وغیرہ میں بار بار آنا جانا ہو وہاں موجود مسلمانوں کو ہر بار سلام کرنا کارِ ثواب ہے (4) سلام میں پہل کرنا سنت ہے (5)سلام میں پہل کرنے والا اللہ کریم کا مُقَرَّب (یعنی نزدیکی پانے والا بندہ) ہے (6) سلام میں پہل کرنے والا تکبُّر سے بھی بَری (یعنی آزاد) ہے ۔ جیسا کہ میرے مکی مَدَنی آقا، پیارے پیارے مصطفٰی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ باصَفا ہے: پہلے سلام کہنے والا تکبُّر سے بری ہے۔ ( )(7)سلام (میں پہل) کرنے والے پر 90 رَحمتیں اور جواب دینے والے پر 10 رَحمتیں نازِل ہوتی ہیں( )(8)اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ (یعنی تم پر سلامتی ہو) کہنے سے 10 نیکیاں ملتی ہیں ۔ ساتھ میں وَرَحْمَةُاللہِ (اور اللہ کی رحمت ہو) بھی کہیں گے تو 20نیکیاں ہو جائیں گی ۔ اور ”وَبَرَکَاتُہٗ “ (اور اس کی برکتیں ہوں) شامل کریں
گے تو 30 نیکیاں ہوجائیں گی۔ بعض لوگ سلام کے ساتھ’’ جنَّتُ المقام اور دوزخ الحرام ‘‘ کے الفاظ بڑھا دیتے ہیں یہ غلط طریقہ ہے اور یہ جملہ لغۃً بھی غلط ہے۔ بلکہ بعض من چلے تو مَعَاذَ اللہ مذاقاًیہاں تک بک دیتے ہیں: ’’آپ کے بچے ہمارے غلام۔‘‘ امام اَحمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ ’’فتاوٰی رضویہ‘‘ جلد22 صفحہ409 پر فرماتےہیں : کم از کم اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ اور اس سے بہتر وَرَحْمَةُاللہِ ملانا اور سب سے بہتر وَبَرَکَاتُہٗ شامل کرنا اور اس پر زِیادَت(یعنی اضافہ) نہیں۔ اُس (یعنی سلام کرنے والے) نے اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ کہا تو یہ (جواب میں ) وَعَلَیْکُمُ السَّلامُ وَ رَحْمَةُاللہ کہے۔ اورا گر اُس نے اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُاللہ کہا تو یہ وَعَلَیْکُمُ السَّلامُ وَ رَحْمَةُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ کہے اور اگر اُس نے وَبَرَکَاتُہٗ تک کہا تویہ بھی اِتنا ہی کہے کہ اس سے زِیادَت (یعنی اضافہ) نہیں ۔ وَاللہُتَعالٰی اَعْلَمُ (9) اِسی طرح جواب میں وَعَلَیْکُمُ السَّلامُ وَ رَحْمَةُاللہِ وَبَرَکَاتُہٗ کہہ کر 30 نیکیاں حاصِل کی جا سکتی ہیں (01) سلام کا جواب فوراً اور اتنی آواز سے دینا واجب ہے کہ سلام کرنے والا سن لے (11) سلام اور جوابِ سلام کا دُرُست تلفُّظ یاد فرما لیجئے ۔ پہلے میں کہتا ہوں آپ سن کر دوہرایئے: اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ (اَسْ۔ سَلا۔مُ۔ عَلَیْ۔ کُمْ) اب پہلے میں جواب سناتا ہوں پھر آپ اِس کو دوہرایئے: وَعَلَیْکُمُ السَّلام(وَ۔عَ۔لَیکُ۔مُسْ۔ سَلام)۔
رضائے حق کیلئے تم سلام عام کرو سلامتی کے طلب گار ہو سلام کرو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
”ہاتھ ملانا سنت “ہے کے چودہ حروف کی نسبت سے
ہاتھ ملانے کی 14 سنتیں اور آداب
(1) دومسلمانوں کابوقتِ ملاقات دونوں ہاتھوں سے مُصافَحَہ کرنا یعنی دونوں ہاتھ ملانا
سنت ہے (2)ہاتھ ملانے سے پہلے سلام کیجئے (3) رخصت ہوتے وَقت بھی سلام کیجئے اور (ساتھ میں)ہاتھ بھی ملا سکتے ہیں(4)رحمت ِ عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب دو مسلمان ملاقات کرتے ہوئے مُصافَحَہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے خیریت دریافت کرتے ہیں تو اللہ پاک ان کے درمیان سو رَحمتیں نازِل فرماتا ہے جن میں سے ننانوے رَحمتیں زیادہ پُرتَباک طریقے سے ملنے والے اور اچھے طریقے سے اپنے بھائی سے خیریت دریافت کرنے والے کے لئے ہوتی ہیں۔‘‘ ( )(5)ہاتھ ملانے کے دَوران دُرُود شریف پڑھئے ہاتھ جدا ہونے سے پہلے اِن شاءَ اللہُ الکریم اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے(6) ہاتھ ملاتے وَقت دُرُود شریف پڑھ کر ہو سکے تو یہ دُعا بھی پڑھ لیجئے: ’’یَغْفِرُ اللّٰہُ لَنَا وَلَکُمْ‘‘ (یعنی اللہ پاک ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے) (7) دو مسلمان ہاتھ ملانے کے دَوران جو دُعا مانگیں گے اِن شاءَ اللہُ الکریم قبول ہوگی اورہاتھ جُدا ہونے سے پہلے پہلے دونوں کی مغفرت ہو جائے گی اِن شاءَ اللہُ الکریم (8) آپس میں ہاتھ ملانے سے دُشمنی دُور ہوتی ہے ﴿9﴾مسلمان کو سلام کرنے ، ہاتھ ملانے بلکہ مَحَبَّت کے ساتھ اس کا دیدار کرنے سے بھی ثواب ملتا ہے۔ حدیث ِ پاک میں ہے: جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی طرف مَحَبَّت بھری نظر سے دیکھے اور اُس کے دل میں عَداوت نہ ہو تو نگاہ لوٹنے سے پہلے دونوں کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ( )(10) جتنی بار ملاقات ہو ہر بار ہاتھ ملا سکتے ہیں (11) آج کل بعض لوگ دونوں طرف سے ایک ہاتھ ملاتے بلکہ صرف اُنگلیاں ہی آپس میں ٹکرا دیتے ہیں یہ سب خلافِ سنت ہے (12)ہاتھ ملانے کے بعد خود اپنا ہی ہاتھ چوم لینا مکروہ ہے۔ ( )ہاں اگر کسی بزرگ سے ہاتھ ملانے کے بعد حصولِ برکت کیلئے اپنا ہاتھ
چوم لیا توکَرَاہَت نہیں، جیساکہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اگر کسی سے مُصَافَحَہ کیا پھر برکت کیلئے اپنا ہاتھ چوم لیا تو مُمَانَعَت کی کوئی وجہ نہیں جبکہ جس سے ہاتھ ملائے وہ اُن ہستیوں میں سے ہو جن سے برکت حاصل کی جاتی ہو۔ ( )(13) اگر اَمرد ( یعنی خوبصورت لڑکے) سے(یا کسی بھی مرد سے) ہاتھ ملانے میں شہوت آتی ہو تو اُس سے ہاتھ ملانا جائز نہیں بلکہ اگر دیکھنے سے شَہْوَت آتی ہو تو اب دیکھنا بھی گناہ ہے ( ) (14) مُصافَحَہ کرتے(یعنی ہاتھ ملاتے) وَقت سنّت یہ ہے کہ ہاتھ میں رومال وغیرہ حائل نہ ہو، دونوں ہتھیلیاں خالی ہوں اور ہتھیلی سے ہتھیلی ملنی چاہئے۔ ( )
”ایک چپ ہزار سکھ“ کے بارہ حروف کی نسبت سے
بات چیت کرنے کی 12 سنتیں اور آداب
(1)مسکرا کر اور خَنْدہ پیشانی سے بات چیت کیجئے (2)مسلمانوں کی دِلجوئی کی نیت سے چھوٹوں کے ساتھ شفقت بھرا اور بڑو ں کے ساتھ ادب والا لہجہ رکھئے، اِن شاءَ اللہُ الکریم ثواب بھی ملے گا اور چھوٹے بڑے سب آپ کی عزت کریں گے (3)چِلّا چِلّا کر بات کرنا سنت نہیں (4) اچھی اچھی نیّتوں کے ساتھ چھوٹے بچوں سے بھی آپ جناب سے گفتگو کی عادت بنایئے، آپ کے اَخلاق بھی اِن شاءَ اللہُ الکریم عمدہ ہوں گے اور بچّے بھی آداب سیکھیں گے (5)بات چیت کرتے وقت پردے کی جگہ ہاتھ لگانا، انگلیوں کے ذَرِیعے بدن کا میل چُھڑانا، دوسروں کے سامنے با ربار ناک کوچُھونا یاناک یا کان میں انگلی ڈالنا، تھوکتے رہنا اچھی بات نہیں، اس سے دو سرو ں کوگِھن آتی ہے (6) جب تک دوسرا بات کر رہا
ہو، اِطمینان سے سنئے۔ اس کی بات کاٹ کراپنی بات شرو ع کر دینا سنّت نہیں(7) بات چیت کرتے ہوئے بلکہ کسی بھی حالت میں قَہقہہ نہ لگائیے کہ سر کار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کبھی قہقہہ نہیں لگایا (8) زیادہ باتیں کرنے اور بار بار قہقہہ لگانے یعنی زور زور سے ہنسنے سے ہیبت جاتی رہتی ہے (9)سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کافرمانِ عالیشان ہے: ’’جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ اسے دُنیا سے بے رغبتی اور کم بولنے کی نعمت عطا کی گئی ہے تو اس کی قُرْبت و صُحْبت اختیار کرو کیونکہ اسے حکمت دی جاتی ہے‘‘( )(10)فرمانِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : ’’جو چپ رہا اُس نے نجات پائی۔‘‘( ) ’’مرآت شریف‘‘میں ہے : حضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ گفتگو کی چار قسمیں ہیں : (1) خَالِص مُضِر(یعنی مکمَّل طور پر نقصان دِہ) (2)خالص مفید (3)مُضِر(یعنی نقصان دِہ) بھی مفید بھی (4)نہ مضر نہ مفید۔ خالص مضر(یعنی مکمَّل نقصان دِہ ) سے ہمیشہ پرہیز ضروری ہے، خالص مفید کلام (بات) ضرور کیجئے، جو کلام مضر بھی ہومفید بھی اس کے بولنے میں احتیاط کرے بہتر ہے کہ نہ بولے اور چوتھی قسم کے کلام میں وَقت ضائع کرنا ہے۔ ا ن کلاموں (یعنی چار قسم کی باتوں) میں امتیاز (یعنی فرق) کرنا مشکل ہے لہٰذا خاموشی بہتر ہے ( ) (11) کسی سے جب بات چیت کی جائے تو اس کا کوئی صحیح مقصد بھی ہونا چاہیے اور ہمیشہ مخاطب کے مزاج اور اس کی نفسیات کے مطابق بات کی جائے (12) بدزبانی اور بے حیائی کی باتوں سے ہر وقت پرہیز کیجئے، گالی گلوچ سے بچتے رہئے اور یاد رکھئے کہ کسی مسلمان کو بلا اجازتِ شرعی گالی دینا حرامِ قطعی ہے ( )اور بے حیائی کی بات کرنے والے پر جنت حرام ہے۔ حضور تا جدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’اس شخص پر جنت حرام ہے جو فُحش گوئی سے کام لیتا ہے۔‘‘ ( )فُحش بات کے معنی یہ ہے: اَلتَّعْبِیْرُ عَنِ الْاُمُورِ الْمُسْتَقْبَحَۃِ بِالْعِبَارَاتِ الصَّرِیْحَۃِ یعنی شرمناک اُمور (مَثَلاً گندے اور برے معاملات) کا کھلے الفاظ میں تذکرہ کرنا۔ ( )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
… بہار شریعت ،3/459 بالتصرف
… شعب الایمان،6/433، حدیث:8786
… کیمیائے سعادت ،1/394
… معجم اوسط،5/380، حدیث:7672
… معجم اوسط،6/131،حدیث:8251
… بہارِ شریعت ،3/472
… جد ا لممتار ،7/65
… درمختار،2/98
… بہارشریعت ،3/471
… ابن ماجہ،4/422، حدیث:4101
… ترمذی،4/225، حدیث:2509
… مراٰۃ المناجیح،6/464 ملخصا
… فتاوٰی رضویہ،21/127ملخصا
… کتاب الصمت مع موسوعۃ الامام ابن ابی الدنیا 7/204،رقم :325
… احیاءالعلوم،3/151