30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمطبِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط : یہ مضمون ”غیبت کی تباہ کاریاں “ صفحہ 194 تا 210سے لیا گیا ہے ۔6مُردوں کے واقعات دُعائے عطار:یا اللہ کریم :جو کوئی 17صفحات کا رسالہ’’6مُردوں کے واقعات‘‘پڑھ یا سُن لے، اُسے رزقِ حلال کھانے اوربال بچّوں کو بھی حلال کھلانے کی توفیق عطافرمااوراُس پر جہنَّم کی آگ حرام کردے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ۔
دُرُود شریف کی فضیلت
اللہ کر یم کے مَحبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کاارشادِ مُشکبار ہے:”جس نے مجھ پر سو(100) مرتبہ دُرُودِپاک پڑھا اللہ کریم اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھ دیتا ہے کہ یہ نِفاق اور جہنَّم کی آگ سے آزاد ہے اور اُسے بروزِ قیامت شُہَدا کے ساتھ رکھے گا۔“ (معجم اوسط، 5/252 حدیث: 7235)6مُردوں کی سَنسنی خیز حکایات
لوگوں کی عبرت کیلئے فوت شُدہ مسلمانوں کی بُرائی بیان کرنے میں بھی شرعاً حرج نہیں ہے،مُحدِّثین کِرام رحمۃُ اللہِ علی ہم نے مسلمانوں کو گناہوں سے ڈرانے کیلئے کتابوں میں مرے ہوئے کافِروں کے علاوہ بدمذہبوں اور مسلمانوں کے عذابوں کے بھی تذکِرے فرمائے ہیں چُنانچِہ اس ضِمْن میں 6 مُردوں کی سنسنی خیز حِکایات مُلاحَظہ فرمایئے:1آگ کا کُرتا
حضرتِ سیِّدُنا ابو رافِع رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ بقیع میں گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اُف !اُف!تو میں نے گُمان کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میرا اِرادہ فرماتے ہیں ۔ میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! کیا مجھ سے کوئی غَلَطی ہوئی؟ فرمایا:نہیں، بلکہ اس قَبْر والے شخص کو میں نے بنو فُلاں کے پاس صدقہ وُصول کرنے بھیجا تھا تو اس نے ایک چادر بطورِ خیانت بچالی تھی۔ آخر ویسا ہی آگ کاکُرتا اس کو پہنا یاگیا۔ (نسائی، 1/ 150،حدیث: 859)سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے کچھ چُھپا ہوا نہیں
اے عاشقانِ رسول!دیکھا آپ نے!درسِ عبرت دینے کیلئے اِس حدیثِ پاک میں فوت شدہ شخص کے عذابِ قَبْر کا ذِکْر کیا گیا ہے۔ اِس روایت سے یہ بھی روزِ روشن کی طرح ظاہر ہوا کہ ہمارے مَکّی مَدَنی آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کی عطا سے عِلْمِ غیب رکھتے ہیں جبھی تو قَبْر میں ہونے والے عذاب کے ساتھ ساتھ سببِ عذاب کی بھی ہاتھوں ہاتھ خبر ارشاد فرما دی ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلِ سنّت، مولانا شاہ امام اَحمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کا کتنا پیارا عقیدہ تھا چُنانچِہ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی حدائقِ بخشش شریف کا شِعْر سنئے اور ایمان تازہ کیجئے۔ سرِ عرش پر ہے تری گزر، دلِ فرش پر ہے تری نظر ملکوت و مُلک میں کوئی شے ،نہیں وہ جو تجھ پہ عِیاں نہیں (حدائق بخشش،ص109 ) (یعنی یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! اللہ ربّ ُ العزّت کی عنایت سے عرش آپ کی گزرگاہ ہے اور فرش زیرِنِگاہ ہے۔ اَلغرض ملائکہ ہوں یا عالمِ ارواح ،کائنات میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے پوشیدہ ہو) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد2بے دین کی گردن میں سانپ
حَافِظْ اَبُوْخَلَّال نے”کتاب کراماتُ الاولیاء“میں اپنی سند سے روایت کی کہ مجھ سے عبد اللہ بن ہاشم نے فرمایا:میں ایک میِّت کو نہلانے گیا، جب میں نے اُس کے جسم سے کپڑا کھولا تو اُس کی گردن پر سانپ لپٹے ہوئے تھے! میں نے ان سانپوں سے کہا کہ آپ کو اِس پر مُسلَّط کیا گیا ہے اور ہمیں اس کو غُسْل دینا ہے، اگر آپ اجازت دیں تو ہم اِس کو غُسْل دے دیں پھر آپ اپنی جگہ واپس آجایئے، تو وہ سانپ ہٹ کر ایک کونے میں ہوگئے۔ جب ہم غسلِ میِّت سے فارِغ ہوئے تو وہ اپنی جگہ واپَس آ گئے۔ یہ شخص بے دینی(یعنی گمراہی) میں مشہور تھا۔ (شرح الصدور،ص177)3گردن میں سانپ لپٹا ہوا تھا
حضرتِ ابو اِسحاق رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:مجھے ایک میِّت کو غُسْل دینے کے لیے بلایا گیا، جب میں نے اُس کے چِہرے سے کپڑا ہٹا یا تو اُس کی گردن میں سانپ لپٹا ہوا تھا، لوگوں نے بتایا کہ یہ صَحابۂ کِرام علیہمُ الرّضوان کو گالیاں دیتا تھا ۔( مَعاذَ اللہ) (شرح الصدور ،ص 173)صَحابہ کے حق میں خُدا سے ڈرو!
اے عاشقانِ صَحابہ و اہلِ بیت! مَعاذَ اللہ! صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کو گالیاں دیناگناہ، گناہ بَہُت سَخْت گناہ ،قَطْعی حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔ عاشِقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ الْمدینہ کی کتاب ،”سَوانِحِ کربلا “(192صفحات)صَفْحَہ31پر ہے: حضرتِ عبد اللہ بن مُغَفَّل رضی اللہُ عنہ سے مَروی ہے کہ حُضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ میرے اَصحاب کے حق میں خُدا سے ڈرو !خُدا کا خوف کرو!!انھیں میرے بعد نشانہ نہ بناؤ، جس نے انہیں محبوب (یعنی پیارا)رکھا میری مَحبَّت کی وجہ سے محبوب رکھا اور جس نے ان سے بُغض کیا وہ مجھ سے بُغض رکھتا ہے، اس لئے اُس نے ان سے بُغض رکھا، جس نے انہیں اِیذا دی اُس نے مجھے اِیذا دی، جس نے مجھے اِیذا دی اُس نے بے شک خدائے پاک کو اِیذا دی، جس نے اللہ پاک کو اِیذا دی قریب ہے کہ اللہ پاک اُسے گِرِفتار کرے۔ ( ترمذی ،5/463، حدیث:3888)صَحابۂ کِرام علیہمُ الرّضوان کانہایت ادب کیجئے
صدرُ الْاَفاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیمُ الدّین مُراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:مسلمان کو چاہیے کہ صَحابۂ کِرام (علیہمُ الرّضوان)کا نہایت ادب رکھے اور دل میں اُن کی عقیدت ومَحَبَّت کو جگہ دے۔ ان کی مَحَبَّت حُضُور ( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )کی مَحَبَّت ہے اور جو بد نصیب صَحابہ(علیہمُ الرّضوان)کی شان میں بے ادَبی کے ساتھ زَبان کھولے وہ دشمنِ خُدا و رسول ( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسل م ) ہے۔مسلمان ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھے۔ (سوانح کربلا ،ص31) میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اہلسنّت کا ہے بَیڑا پار اصحابِ حُضور نَجم ہیں اور ناؤ ہے عِترَت رسولُ اللہ کی (حدائق بخشش،ص153 ) (یعنی اہلِ سنَّت کا بیڑا پار ہے کیوں کہ صَحابۂ کِرام علیہمُ الرّضوان ان کیلئے ستاروں کی مانند اور اہلِ بیت اَطہار علیہمُ الرّضوان کشتی کی طرح ہیں) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد تُوبُوا اِلَی اللہ! اَ سْتَغْفِرُ اللہ صَلوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد4قبر میں بھیانک کالا سانپ
حضرتِ عبد اللہ ابن ِ عبّاس رضی اللہُ عنہمَا کی خدمت میں کچھ لوگ حاضِر ہوئے اور عرض کی:ہم سفرِ حج پر نکلے ہوئے ہیں، مقامِ صِفاح پر ہمارے قافلے کا آدَمی فوت ہو گیا ہے۔ ہم نے اس کے لئے جب قَبْر کھودی توایک بَہُت بڑاکالا سانپ بیٹھا نظر آیا،جس نے قَبْر کوبھر رکھا تھا اُسے چھوڑ کر دوسری قَبْر کھودی تو اس میں بھی وُہی سانپ نظر آیا۔ آپ رضی اللہُ عنہ کی خدمت میں اس گَھمبیر مسئلے کے حل کی خاطر حاضِر ہوئے ہیں ۔حضرتِ عبد اللہ ابن ِ عبّاس رضی اللہُ عنہمَا نے فرمایا:”یہ اس کی خیانت کی سزا ہے جس کا وہ مرتکب ہوا کرتا تھا۔“اور بَیْہَقی کے الفاظ یہ ہیں : ذَاکَ عَمَلُہُ الَّذِیْ کَانَ یَعْمَلُ یعنی ”یہ اُس کے عمل کی سَزا ہے جو وہ کیا کرتا تھا۔“آپ حضرات اُسے ان دونوں میں سے کسی ایک قَبْر میں دفن کر دیجئے، خدا کی قسم! اگر اس دنیا کی ساری زمین بھی کھود ڈالیں گے تب بھی ہر جگہ یہی کچھ پائیں گے۔“بالآخر ہم نے اُس کو سانپ بھری قَبْر میں دفنا دیا۔واپَس آ کر ہم نے اس کا سامان اس کے گھر والوں کو دے دیا اوراس کی بیوہ سے اس کے اعمال کے بارے میں سُوال کیا تو اس نے بتایا:یہ کھانا بیچتا تھا اور اُس میں سے اپنے گھر والوں کے لئے کچھ نکال لیتا تھا پھر کمی پوری کرنے کے لئے اُس میں اُتنی ہی مِلاوٹ کر دیتا تھا۔ (شرح الصدور ،ص174،(شعب الایمان) ،4/334، حدیث:5311)دھوکہ بازی جہنَّم سے ہے
اےعاشِقان ِرسول!دیکھا آپ نے!ضَرورتاًعبرت کیلئے مُردے کی بُرائی بیان کرنا جائز تھا جبھی تو حضرتِ عبد اللہ ابن ِ عبّاس رضی اللہُ عنہما نے اُس مرے ہوئے حاجی کی بُرائی بیان فرمائی نیز جواز ہی کے سبب بلند پایہ مُحدِّثین نے اس حکایت کو اپنی اپنی کتب میں نقل کیا۔ اس حکایت سے مِلاوٹ والا مال دھوکے سے بیچنے کی تباہ کاری معلوم ہوئی۔ عاشِقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ الْمدینہ کی کتاب ، ”بیاناتِ عطّارِیّہ“ حصّہ اوّل (480 صفحات) کے صَفْحَہ 218 پر ہے: اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جو ہمارے ساتھ دھوکا بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں اورمَکْر اور دھوکا بازی جہنَّم میں ہیں۔ (معجم کبیر، 10 /138، حدیث: 10234) ایک اور مقام پر سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ تین اَشخاص داخِلِ جنَّت نہ ہوں گے (1) دھوکا باز(2) بَخیل (3) اِحسان جتانے والا۔ (ترمذی ،3/388، حدیث:1970)ملاوٹ والا مال بیچنے کا جائز طریقہ
یہاں وہ لوگ عبرت حاصِل کریں جومِلاوٹ والا مال دھوکے سے بیچتے ہیں اگر مرنے کے بعد پکڑ میں آ گئے تو کیا ہو گا !اگرمال مِلاوٹ والا ہے اور گاہک کو مِلاوٹ وغیرہ کی مِقْدار بتا دی یا ملاوٹ بِالکل نُمایاں نظر آ رہی ہے توایسا مال بیچنا جائز ہے جبکہ اِس میں سے کچھ چھپایا نہ گیا ہو مَثلاً ملاوٹ کی مقدار بتائی مگر کم بتائی جیسا کہ 50فیصد ملاوٹ تھی اور 25فیصد کہا یاجتنی ملاوٹ اوپر سے نظرآرہی ہواس سے زیادہ نیچے ملاوٹ کر رکھی ہو اور وہ ظاہر نہ کرے تو ناجائز ہے۔ اِسی طرح دھوکا دینے کیلئے اوپر عمدہ پھل اور نیچے یا بیچ میں گلے سڑے پھل رکھنے والوں اور یوں ہی دوسری چیزوں میں دھوکا بازی سے کام لینے والوں کو ان گُناہوں سے بچنا چاہئے۔ دھوکا بازی میں نُحوست ہے بڑی یاد رکھ اس کی سزا ہو گی کڑی صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد تُوبُوا اِلَی اللہ! اَسْتَغْفِرُ اللہُّ صَلوا ُّ عَلَی الْحَبِیب!ُّ صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدُّ5 پرندے نے قَے کی تو اُس میں سے انسان نکل پڑا!
عِصْمَہ عَبَّادَانِی کہتے ہیں:میں کسی جنگل میں گھوم رہا تھا کہ میں نے ایک گِرجا دیکھا، گِرجا میں ایک راہِب کی خانقاہ تھی اس کے اندر موجود راہِب سے میں نے کہا کہ تم نے اِس (ویران) مقام پرجو سب سے عجیب و غریب چیز دیکھی ہووہ مجھے بتاؤ!تواُ س نے بتایا:میں نے ایک روز یہاں شُتَرمُرغ جیسا ایک دیو ہیکل سفید پرندہ دیکھا،اُس نے اُس پتّھر پر بیٹھ کرقَے کی، اس میں سے ایک انسانی سر نکل پڑا ،وہ برابر قے کر تا رہا اور انسانی اَعضانکلتے رہے اور بجلی کی سی سُرعَت (یعنی پُھرتی )کے ساتھ ایک دوسرے سے جُڑتے رہے یہاں تک کہ وہ مکمَّل آدَمی بن گیا!اُس آدَمی نے جوں ہی اُٹھنے کی کوشش کی اُس دیو ہیکل پرندے نے اُس کے ٹُھونگ ماری اور اُس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، پھر نگل گیا۔ کئی روز تک میں یہ خوف ناک منظر دیکھتا رہا، میرا یقین خُدائےپاک کی قدرت پر بڑھ گیا کہ واقِعی اللہ پا ک مار کر جِلانے (زندہ کرنے) پر قادِرہے ۔ ایک دن میں اُس دیو ہیکل پر ندے کی طرف مُتَوَجِّہ ہوا اور اُس سے دریافت کیا کہ اے پرندے!میں تجھے اُس ذات کی قسم دے کر کہتا ہوں جس نے تجھ کو پیدا کیا کہ اب کی بار جب وہ انسان مکمَّل ہو جائے تو اس کو باقی رہنے دینا تا کہ میں اس سے اس کا عمل معلوم کر سکوں ؟ تو اُس پرندے نے فَصیح عَرَبی میں کہا: میرے رب کے لئے ہی بادشاہت اوربَقا ہے ہر چیز فانی ہے اور وُہی باقی ہے میں اُس کا ایک فِرِشتہ ہوں اور اِس شخص پر مُسَلَّط کیا گیا ہوں تا کہ اس کے گناہ کی سزا دیتا رہوں۔جب قے میں وہ انسان نکلا تو میں نے اس سے پوچھا:اے اپنے نفس پر ظلم کرنے والے انسان!تو کون ہے اور تیرا قصّہ کیاہے ؟ اُس نے جواب دیا :”میں حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ الْمُرتَضٰی شیرِخُدا رضی اللہُ عنہ کا قاتل عبدالرحمن ابنِ مُلْجِم ہوں، جب میں مر چکا تو اللہ پاک کے سامنے میری روح حاضِر ہوئی، اُس نے میرا نامہ اعمال مجھ کو دیا جس میں میری پیدائش سے لے کر حضرت علی رضی اللہُ عنہ کو شہید کرنے تک کی ہر نیکی اور بدی لکھی ہوئی تھی ۔ پھر اللہ پاک نے اِس فرِشتے کو حکم دیا کہ وہ قِیامت تک مجھے عذاب دے۔“ یہ کہہ کر وہ چُپ ہو گیا اور دیو ہیکل پرندے نے اِس پر ٹُھونگیں ماریں اور اُس کو نگل گیا اور چلا گیا۔(شرح الصدور ،ص175)ابنِ مُلْجم نے مولیٰ علی رضی اللہُ عنہ کو کیوں شہید کیا؟
اے عاشقانِ صَحابہ واہلِ بیت! دیکھا آپ نے!مولیٰ علی شیرِ ِخُدا رضی اللہُ عنہ کے قاتل کا جو کہ خارجی بددین و گمراہ تھا کیسا درد ناک اَنجام ہوا!وہ بدنصیب کیوں اِتنا بڑا گناہ کرنے کے لئے آمادہ ہوا اِس سلسلے میں حضرتِ علّامہ جلالُ الدّین سُیُوطِی شافِعی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ”مُستدرَک“ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ابنِ مُلْجِم ایک قَطَام نامی خارِجِیہ عورت کے عشقِ مجازی میں گرفتار ہو گیا تھا ،اُس نے شادی کیلئے مہر میں تین ہزار درہم اور حضرت مولیٰ علی رضی اللہُ عنہ کے قَتْل کا مطالبہ رکھا تھا۔ (تاریخ الخلفاء ،ص139، مستدرک،4 /121، رقم:4744) افسوس!عشقِ مجازی میں ابنِ مُلْجِم اندھا ہو گیا اور اس نے حضرتِ مولائے کائنات ، مولیٰ علی شیرِ خدا رضی اللہُ عنہ جیسی عظیم ہستی کو شہید کر دیا، اِس نابَکار کو وہ عورت تو خاک ملنی تھی ہاتھوں ہاتھ یہ سزا ملی کہ لوگوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اُسے پکڑ لیا، بِالاخِر اُس کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ٹوکرے میں ڈال کر آگ لگادی گئی اور وہ جل کر خاکِستَر ہو گیا ! اور مرنے کے بعدتا قِیامت جاری رہنے والے اس کے لرزہ خیزعذاب کا ابھی آپ نے تذکِرہ سنا۔ وہ بدبخت ، نہ اِدھر کا رہا نہ اُدھر کا رہا۔حضرت سیِّدُنا ابو الدّرداء رضی اللہُ عنہ نے بالکل سچ فرمایا ہے کہ”شہوت کی گھڑی بھر کیلئے پیروی طویل غم کا باعث بنتی ہے ۔“(صَحابی کا قول یہیں تک ہے)( تاریخ ابن عساکر ،47/173)قابیل بھی تو شَہْوت ہی کی وجہ سے حضرتِ سیِّدُنا ہابیل رحمۃُ اللہِ علیہ کو شہید کر کے برباد ہوا اور برباد بھی کیسا ہوا کہ صرف سُن کر ہی جُھر جھری آجائے! تو اِس کی بھی حکایت مُلا حَظہ فرمایئے اورشَہْوت کی آفت سے ربُّ العزَّت کی پناہ مانگئے۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع