30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْنط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمطبِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط یہ مضمون”عاشقانِ رسول کی 130 حکایات “صفحہ 84 تا 107 سے لیا گیا ہے۔ 60حج کرنے والا حاجی دُعائے عطار: یا اللہ پاک:جو کوئی 17صفحات کا رسالہ” 60حج کرنے والا حاجی“ پڑھ یا سُن لے اُسےہر سال مقبول حج نصیب فرمااوراُسےسبز سبز گنبد کے سائے میں شہادت اورجنت البقیع میں خیر سے دفن ہونا نصیب فرما۔ آمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمدُرُود شریف کی فضیلت
نبیِ کریم ، رؤفٌ رَّحیم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےفرمایا:جس نے دن اور رات میں میری طرف شوق و محبت کی وجہ سے تین تین مرتبہ دُرُودِ پاک پڑھا اللہ پر حق ہے کہ وہ اُس کے اُس دن اور اُس رات کے گناہ بخش دے۔ (معجم کبیر ،18/362، حدیث:928) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدجب بُلا یاآقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خود ہی انتِظام ہوگئے
حضرتِ علّامہ اَبُو الْفَرَج عبدُ الرّحمٰن بن علی ابنِ جَوزی رحمۃُ اللہ علیہ اپنی کتاب عُیُونُ الحکایات میں تحریر کرتے ہیں : ایک پرہیزگار شخص کا بیان ہے: ”میں مسلسل تین سال سے حج کی دُعا کر رہا تھا لیکن میری حسرت پوری نہ ہوئی، چوتھے سال حج کا موسِمِ بہار تھا اور دل آرزوئے حرم میں بے قرار تھا ۔ ایک رات جب میں سویا تومیری سوئی ہوئی قسمت انگڑائی لے کر جاگ اُٹھی میں خواب میں جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زیارت سے شَرَفْیاب ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ تم اِس سال حج کے لئے چلے جانا۔ ‘‘ میری آنکھ کھلی تو دل خوشی سے جُھوم رہا تھا ، سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی یہ میٹھی میٹھی آواز کانوں میں رَس گھول رہی تھی،’’تم اِس سال حج کیلئے چلے جانا۔‘‘ بارگاہِ نبوَّت سے حج کی اجازت مل چکی تھی، میں بَہُت شاداں وفَرحاں تھا ۔ اچانک یاد آیا کہ میرے پاس زادِ راہ(یعنی سفر کا خرچ) تو ہے نہیں ! اس خیال کے آتے ہی میں غمگین ہوگیا ۔ دوسری شب محبوبِ رب ،شَہَنْشاہِ عرب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خواب میں پھر زیارت ہوئی، لیکن میں اپنی غُربت کا ذکر نہ کر سکا۔ اِسی طرح تیسری رات بھی خواب میں بارگاہِ رسالت سے حکم ہوا: ’’تم اِس سال حج کو چلے جانا۔‘‘میں نے سوچا اگر مکّی مَدَنی سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم چوتھی بار خواب میں تشریف لائے تو میں اپنی مالی حالت کےمُتَعلِّق عرض کردوں گا ۔ آہ! پلّے زر نہیں رختِ سفر سرور نہیں تم بُلا لو تم بُلانے پر ہو قادِر یانبی چوتھی رات پھر سرورِ کائنات ،شاہِ موجودات صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے میرے غریب خانے میں جلوہ گَری فرمائی اور ارشاد فرمایا: ’’تم اِس سال حج کو چلےجانا“۔میں نے دست بستہ عرض کی: میر ے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! میرے پاس اَخراجات نہیں ہیں ۔ ارشاد فرمایا : تم اپنے مکان میں فُلاں جگہ کھودو وہاں تمہارے دادا کی زِرَہ موجود ہوگی ۔اِتنا فرماکر سلطانِ بَحْرو بَر صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لے گئے ۔ صُبْح جب میری آنکھ کھلی تو میں بَہُت خوش تھا۔ نَمازِ فجر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بتائی ہوئی جگہ کھو دی تو وہاں واقعی ایک قیمتی زِرَہ موجود تھی وہ بِالکل صاف ستھری تھی گویا اُسےکسی نے استعمال ہی نہ کیا ہو! میں نے اُسے چا ر ہزار دینار میں بیچا اور اللہ پاک کا شکر ادا کیا۔ اَلحمدُ لِلّٰہ ! شَہَنْشاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نظرِ عنایت سے اسبابِ حج کا خود ہی انتِظام ہوگیا۔(عیون الحکایات، ص326ملخصا) جب بُلایا آقا نے خود ہی انتِظام ہو گئے صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدہم نے تیری بات سن لی ہے
حضرتِ علی بن مُوَفق رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حج کی سعادت حاصِل کی، کعبۂ مُشَرَّفہ کا طواف کیا، حجرِ اسود کا بوسہ لیا، دو رَکْعت نمازِ طواف پڑھی اور کعبہ شریف کی دیوار کے ساتھ بیٹھ کر رونے لگا اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کی : ’’یا اللہ !میں نے تیرے پاک گھر کے گِرد نہ جانے کتنے ہی چکّر لگائے مگر میں نہیں جانتا کہ قَبول ہوئے یا نہیں !‘‘پھر مجھ پر غُنُودَگی طاری ہو گئی،میں نے ایک غیبی آواز سُنی: ’’اے علی بن مُوَفقْ!ہم نے تیری بات سن لی ہے، کیاتُو اپنے گھر میں صِرْف اُسی کو نہیں بلاتا جس سے تو مَحَبَّت کرتا ہے !‘‘ (الروض الفائق ،ص59) اللہ پاک کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بُلاتے ہیں اسی کو جس کی بگڑی یہ بناتے ہیں کمر بندھنا دِیارِ طیبہ کو کھلنا ہے قسمت کا (ذوقِ نعت،ص37)صبرکرتے توقدموں سے چشمہ جاری ہوجاتا
حضرتِ عبد اللہ بن حُنَیْف فرماتے ہیں: ’’میں حج کے ارادے سے چلا،بغداد پہنچنے تک حالت یہ تھی کہ لگاتارچالیس دن تک کچھ نہ کھایاتھا۔سخت پیاس کی حالت میں جب ایک کُنوئیں پر گیاتووہاں ایک ہِرَن پانی پی رہا تھا، مجھے دیکھتے ہی ہِرن بھاگ کھڑا ہوا، جب میں نے کُنوئیں میں جھانکا تو پانی بَہُت نیچے تھا اور اِسے بِغیر ڈَول کے نکالا نہیں جاسکتا تھا ۔میں یہ کہتے ہوئے چل دیا: میرے مالِک ومولیٰ ! میرا مر تبہ اس ہِرَن کے برابربھی نہیں !‘‘تو مجھے پیچھے سے آواز آئی:’’ہم نے تجھے آزمایاتھالیکن تُو نے صَبْر نہ کیا،اب واپس جااور پانی پی لے۔ “ جب میں گیا تو کنواں اوپر تک پانی سے بھراہواتھا، میں نے خوب پیاس بجھائی اور اپنا مشکیزہ بھی بھر لیا توغیب سے ایک آواز سنی:’’ہِرَن تو مشکیزے کے بِغیر آیا تھا لیکن تم مشکیزے کے ساتھ آئے ہو۔‘‘میں راستے بھر اُسی مشکیزے سے پانی پیتا اور وُضو کرتا رہا مگر پانی خَتْم نہ ہوا۔پھر جب حج سے واپسی ہوئی اور جامِع مسجِد میں داخِل ہوا تو وہاں حضرتِ جنید بغدادی رحمۃُ اللہ علیہ تشریف فرما تھے،اُنہوں نے مجھے دیکھتے ہی ارشادفرمایا:’’اگر تم لمحہ بھر بھی صَبْر کرلیتے تو تمہارے قدموں سےچَشمہ جاری ہوجاتا۔‘‘(الروض الفائق، ص103ملتقطا) اللہ پاک کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اُن کے طالِب نے جو چاہا پا لیا اُن کے سائل نے جو مانگا مِل گیا (ذوقِ نعت،ص34) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدایک طواف کرنے والے کی نرالی دُعا
حضرتِ قاسِم بن عثمان رحمۃُ اللہ علیہ جو کہ صاحبِ علْم و فَضل اور مُتّقی بُزُرْگ تھے، فرماتے ہیں : میں نے ایک شخص کودیکھا کہ دَورانِ طواف صِرْف یِہی دُعا کئے جا رہا تھا: اَللّٰھُمَّ قَضَیْتَ حَاجَۃَ الْمُحْتَاجِیْنَ وَحَاجَتِیْ لَمْ تَقْضِ یعنی ’’اے اللہ پاک! تُو نے سب حاجت مندوں کی حاجت پوری فرمادی اور میری حاجت پوری نہیں ہوئی۔‘‘ میں نے اُس سے جب اِس نرالی دُعا کی تکرار کے بارے میں اِستِفسارکیا توبولا: ہم سات افراد جِہاد میں گئے، غیر مُسلموں نے ہمیں گرفتار کر لیا، جب بَاِرادۂ قَتْل میدان میں لائے، میں نے یکایک اُوپر سر اُٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آسمان میں سات دروازے کُھلے ہیں اور ہر دروازے پرایک حُور کھڑی ہے، جیسے ہی ہمارے ایک رفیق کوشہید کیا گیا ،میں نے دیکھا کہ ایک حور ہاتھ میں رومال لیے اُس شہید کی روح لینے کے لیے زمین پر اُتر پڑی، اِسی طرح میرے چھ رُفقا شہید کئے گئے اور سب کی رُوحیں لینے ایک ایک حُور اُترتی رہی، جب میری باری آئی تو ایک درباری نے اپنی خدمت کے لیے مجھے بادشاہ سے مانگ لیا اور میں شہادت کی سعادت سے محروم رہ گیا۔ میں نے ایک حور کو کہتے سنا: ’’اے محروم!آخِر اِس سعادت سے تو کیوں محروم رہا؟“پھر آسمان کے ساتوں دروازے بند ہوگئے۔تو اے بھائی !مجھے اپنی مَحرومی پرسخْت افسوس ہے۔کاش! مجھے بھی شہادت کی سعادت عنایت ہو جاتی یِہی وہ حاجت ہے جس کا آپ نے دُعا میں سنا۔ حضرتِ قاسم بن عثمان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میرے نزدیک ان ساتوں خوش نصیبوں میں سب سے افضل یِہی ساتواں ہے جو قَتْل سے بچ گیا،اِس نے اپنی آنکھوں سے وہ روح پرور منظر دیکھا جو دوسروں نے نہیں دیکھاپھر یہ زندہ رہااور انتِہائی ذَوق وشَوق سے نیکیاں کرتا رہا۔ (المستطرف ،1/249مفہوما) اللہ پاک کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مال و دولت کی دعا ہم نہ خدا کرتے ہیں ہم تو مرنے کی مدینے میں دُعا کرتے ہیں (وسائلِ بخشش ،ص293) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّداللہ پاک کی خُفیہ تدبیر
حضرتِ ابومحمد رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ رحمٰن کے بھروسے پرتین مسلمان بغیر زادِ راہ حج کے لئے روانہ ہوئے۔دورانِ سفراُنہوں نے عیسائیوں کی ایک بستی میں قِیام کیا، ان میں سے ایک کی نظر ایک خوبصورت نصرانی(کرسچین) عورت پر پڑی تو اُس پر اس کا دل آگیا۔ وہ ’’عاشِق‘‘ حیلے بہانے سے اُس بستی میں رُک گیا اوردونوں حاجی آگے روانہ ہو گئے، اب اُس عاشِق نے اپنے دل کی با ت اُس عورت کے والِد سے کی،اُس نے کہا : ’’اِس کامَہر تم نہیں دے سکو گے۔ “پوچھا: ’’کیامَہر ہے ؟‘‘جواب ملا: ’’عیسائی (کرسچین) ہو جاؤ۔‘‘ اُس بدقِسمت نے عیسائیت اِختیار کر کے اُس عورت سے نکاح کر لیا اور دو بچّے بھی پیدا ہوئے۔ آخِرَش وہ مَرگیا ۔ اُس کے دونوں رُفَقا حاجی کسی سفرمیں دوبارہ اُس بستی سے گزرے تو تمام حالات سےباخبر ہوئے، انہیں سخت افسوس ہوا،جب وہ نصرانیوں (یعنی عیسائیوں ) کے قبرِستان کے قریب سے گزرے تو اُس (عاشِقِ ناشاد) کی قبر پر ایک عورت اور دو بچّوں کو روتے پایا،وہ دونوں حاجی بھی ( اللہ پاک کی خفیہ تدبیر یاد کرکے)رونے لگے، عورت نے پوچھا: ’’آپ لوگ کیوں رو رہے ہیں؟‘‘اُنہوں نے مرنے والے کی مسلمان ہونے کی حالت میں نَماز و عبادت اور زُہدوتقویٰ وغیرہ کا تذکِرہ کیا۔ جب عورَت نے یہ سنا تو اُس کا دِل اسلا م کی طرف مائِل ہوگیا اوروہ اپنے دونوں بچّوں سَمیت مسلمان ہو گئی ۔ (الروض الفائق، ص16 ملخصا ) اللہ پاک کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پیارے پیارے اسلامی بھائیو!کیسا دل ہلاد ینے والا مُعامَلہ ہے کہ راہِ حرم کا نیک پرہیز گار مسافِر یکا یک عشقِ مجازی کے چکّر میں پھنس کر دل کے ساتھ ساتھ دِین بھی دے بیٹھا اور مختصر سا وَقْت رنگ رلیاں منا کرمو ت کے راستے اندھیری قبر کی سیڑھی اُتر گیا! اِس حِکایت سے درسِ عبرت لیتے ہوئے ہم سبھی کو اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے اور خاتمہ بالخیر کی دعا کرتے رہنا چاہئے کہ نہ جانے ہمارے ساتھ کیا مُعامَلہ ہو! مکتبۃُ المدینہ کی طرف سے جاری کردہ سنسنی خیز V.C.Dیا آڈیو کیسیٹ ’’ اللہ پاک کی خفیہ تدبیر‘‘خرید کر ضَرور مُلاحظہ کیجئے۔ اِن شاء اللہ آپ خوفِ خدا سے کانپ اُٹھیں گے۔ جہاں میں ہیں عِبرت کے ہر سُونُمُونے مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے کبھی غور سے بھی یہ دیکھا ہے تُو نے جو آباد تھے وہ مَحَل اب ہیں سُونے جگہ جی لگانے کی دُنیا نہیں ہے یہ عِبرت کی جا ہے تَماشا نہیں ہے صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّداے کاش! میں بھی رونے والوں میں سے ہوتا
دُعائے عَرَفات میں حاجِیوں کی اشکباری اور آہ وزاری جب جاری ہوئی تو حضرتِ بکر رحمۃُ اللہ علیہ فرمانے لگے:”اے کاش! میں بھی ان رونے والے حاجیوں میں سے ہوتا ۔ ‘‘ اور حضرتِ مُطَرِّف رحمۃُ اللہ علیہ نے خوفِ خدا سے مغلوب ہو کر بطورِ عاجِزی عَرْض کی : اے اللہ کریم! میری (نافرمانیوں کی) وجہ سے ان حاجِیوں کو رَد نہ فرمانا۔ (الروض الفائق ص،59ملخصا) اللہ پاک کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مِرے اَشک بہتے رہیں کاش ہر دم ترے خوف سے یاخدا یاالٰہی (وسائلِ بخشش ،ص 105 ) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع