اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
چڑیا اور اندھا سانپ
شیطٰن لاکھ سستی دلائے یہ رسالہ (33 صَفْحات) مکمَّل پڑھ لیجئے
اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ ہر حال میں ’’راضی برضا ‘‘ رہنے کا جذبہ بڑھے گا۔
مدینے کے سُلطان، رَحمت عالَمِیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عَظَمت نشان ہے:جسے کوئی مشکل پیش آئے اسے مجھ پر کثرت سے دُرُود پڑھنا چاہئے کیونکہ مجھ پر دُرُودپڑھنا مصیبتوں اور بلاؤں کو ٹالنے والا ہے ۔ (اَلْقَوْلُ الْبَدِ یع ص۴۱۴، بستان الواعظین للجوزی ص۲۷۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ڈاکوؤں کا ایک گروہ ڈکیتی کے لیے ایسے مقام پر پہنچا جہاں کھجور کے تین درخت تھے ایک درخت ان میں خشک (یعنی بِغیر کھجوروں کے) تھا۔ ڈاکوؤں کے سردار کا بیان ہے: میں نے دیکھا کہ ایک چڑیا پھل دار درخت سے اُڑ کر خشک درخت پر جا بیٹھتی ہے اور تھوڑی دیر بعد اُڑ کر پھل دار درخت پر آتی ہے پھر وہاں سے اڑ کر دوبارہ اُسی خشک درخت پر آجاتی ہے۔ اِسی طرح اس نے بہت سارے چکّر لگائے ۔ میں تعجُّب کے مارے خشک درخت پر چڑھا تو کیادیکھتا ہوں کہ وہاں ایک اندھا سانپ منہ کھولے بیٹھا ہے اورچڑیا اس کے منہ میں کھجور رکھ جاتی ہے ۔ یہ دیکھ کر میں رو پڑا اور اللہ تَعَالٰی کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا: یاالٰہی!ایک طرف یہ سانپ ہے جس کو مارنے کا حکم تیرے نبیِّ محترم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دیا ہے ، مگرجب تُو نے اس کی آنکھیں لے لیں تو اس کے گزارے کے لئے ایک چڑیا مقرَّرفرما دی ، دوسری طر ف میں تیرا مسلمان بندہ ہونے کے باوُجود مسافِروں کو ڈرادھمکا کرلوٹ لیتا ہوں ۔ اُسی وَقت غیب سے ایک آواز گونج اٹھی: اے فُلاں !توبہ کیلئے میرا دروازہ کُھلا ہے ۔ یہ سن کر میں نے اپنی تلوار توڑ ڈالی اور کہنے لگا : ’’ میں اپنے گناہوں سے باز آیا، میں اپنے گناہوں سے باز آیا۔ ‘‘ پھر وُہی غیبی آواز سنائی دی: ’’ ہم نے تمہاری توبہ قَبول کرلی ہے ۔ ‘‘ جب اپنے رُفَقاکے پاس آ کر میں نے ماجرا کہا تو وہ کہنے لگے: ہم بھی اپنے پیارے پیارے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے صُلْح کرتے ہیں ۔ چُنانچِہ اُنہوں نے بھی سچّے دل سے توبہ کی اورسارے حج کے ارادے سے مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی جانب چل پڑے۔ تین دن سفر کرتے ہوئے ایک گاؤں میں پہنچے، تو وہاں ایک نابینا بڑھیا دیکھی جو میرا نام لے کر پوچھنے لگی کہ کیا اس قافلے میں وہ بھی ہے؟میں نے آگے بڑھ کر کہا: جی ہاں وہ میں ہی ہوں کہو کیا بات ہے؟ بڑھیا اٹھی اورگھر کے اندر سے کپڑے نکال لائی اور کہنے لگی: چند روز ہوئے میرا نیک فرزند انتقال کر گیا ہے، یہ اُسی کے کپڑے ہیں ، مجھے تین رات متواتِر سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خواب میں تشریف لا کر تمہارا نام لے کر ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ وہ آرہا ہے ، یہ کپڑے اُسے دے دینا۔ ‘‘ میں نے اُس سے وہ مبارَک کپڑے لئے اور پہن کر اپنے رُفَقا سمیت مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی طرف روانہ ہوگیا۔ (رَوْضُ الرَّیاحِین ص۲۳۲) اللّٰہُ ربُّ العِزّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
واہ میرے مولیٰ تیری بھی کیا شان ہے! تو نے چڑیا کواندھے سانپ کی خادمہ بنا دیا! تیرے رزق فراہم کرنے کے انداز بھی کیا خوب ہیں !
بے روزگاری اور روزی کی تنگی پر گھبرانے والو! شیطان کے وسوسوں میں نہ آئو!بارہویں پارے کی پہلی آیت میں ارشادِ خداوندی ہے:
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا
ترجَمۂ کنزالایمان: اور زمین پر چلنے والاکوئی ایسا نہیں جس کا رِزْق اللہ کے ذمّۂ کرم پر نہ ہو ۔
اِس آیتِ کریمہ کے تحت مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّان ’’ نور العرفان میں ‘‘ فرماتے ہیں : زمین پر چلنے والے کا اس لیے ذِکر فرمایا کہ ہم کو انہیں کا مُشاہَدہ ہوتا (یعنی دیکھنا ملتا) ہے، ورنہ جِنّات، ملائکہ وغیرہ سب کو رب (عَزَّوَجَلَّ) روزی دیتا ہے۔ اس کی رزّاقِیَّت (یعنی رزق دینے کی صفت) صِرْف حیوانوں میں مُنحصر (مُنْ۔ حَ ۔ صَر یعنی موقوف) نہیں ، جو جس روزی کے لائق ہے اُس کو وُہی ملتی ہے۔ بچّے کو ماں کے پیٹ میں اور قسم کی روزی ملتی ہے اور پیدائش کے بعد دانت نکلنے سے پہلے اور طرح کی، بڑے ہو کر اور طرح کی، غر ضیکہ دَآبَّۃ (یعنی زمین پر چلنے والا) میں بھی عُمُوم (یعنی ہر کوئی شامل) ہے اور رِزْق میں بھی۔ (نور العرفان ص ۳۵۳بتغیر قلیل)
بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں ایک بار فُقَراءِ صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے اپنا قاصِد (یعنی نُمایَندہ) بھیجا جس نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کی: میں فُقَرا (یعنی غریبوں ) کا نمایَندہ بن کر حاضِر ہوا ہوں ۔ مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ تمہیں بھی مرحبااور اُنہیں بھی جن کے پاس سے تم آئے ہو! تم ایسے لوگوں کے پاس سے آئے ہو جن سے میں مَحَبَّت کرتا ہوں ۔ ‘‘ قاصِد نے عرض کی: ’’ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! فُقَرا (یعنی غریبوں) نے یہ گزارِش کی ہے کہ مال دار حضرات جنّت کے دَرَجات لے گئے! وہ حج کرتے ہیں اور ہمیں اس کی اِستِطاعت (یعنی طاقت و قدرت ) نہیں ، وہ عمرہ کرتے ہیں اور ہم اس پر قادِر نہیں ، وہ بیمار ہوتے ہیں تو اپنا زائد مال صَدَقہ کر کے آخِرت کے لئے جمع کر لیتے ہیں ۔ ‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ میری طرف سے فُقَرا کو پیغام دو کہ ان میں سے جو (اپنی غُربت پر) صَبْر کرے اور ثواب کی امّید رکھے اُسے تین ایسی باتیں ملیں گی جو مال داروں کو حاصل نہیں : {۱} جنّت میں ایسے بالاخانے (یعنی بلند محلّات) ہیں جن کی طرف اہلِ جنّت ایسے دیکھیں گے جیسے دنیا والے آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہیں ، ان میں صرف فَقْر (یعنی غُربت) اختیار کرنے والے نبی ، شہید فقیر اور فقیر مومِن داخِل ہوں گے {۲} فُقَرا مال داروں سے قِیامت کے آدھے دن کی مقدار یعنی 500سال پہلے جنّت میں داخِل ہوں گے {۳} مال دار شخص سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکبر کہے اور یِہی کلمات (کَ ۔ لِ۔ مات) فقیربھی ادا کرے تو فقیر کے برابر ثواب مالدارنہیں پا سکتا ، اگر چِہ وہ 10ہزار درہم (بھی ساتھ میں ) صَدَقہ کرے۔ دیگر تمام نیک اعمال میں بھی یِہی مُعامَلہ ہے۔ ‘‘ قاصِد نے واپَس جا کر فُقَرا (یعنی غریبوں ) کو یہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سنایا تو انہوں نے کہا: ہم راضی ہیں ، ہم راضی ہیں۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۴ص۵۹۶، ۵۹۷ مکتبۃ المدینہ، بحوالہ قُوتُ الُقُلوب ج۱ص۴۳۶)
میں بڑا امیرو کبیر ہوں ، شہِ دو سرا کا اسِیر ہوں
درِ مصطَفٰے کا فقیر ہوں ، مِرا رِفعَتوں پہ نصیب ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد