پیشِ لفظ
اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تاریخِ انسانی کے سب سے جامع اور اکمل انسان ہیں۔ اعلیٰ انسانیت کے تمام پہلو آپ کی زندگی میں اپنے تمام تر کمال کے ساتھ جمع ہیں۔ آپ نبی و رسول ہونے کے ساتھ ساتھ داعی(نیکی کی طرف لانے والے) ، مصلح(اصلاح کرنے والے) ، مدبّر(دانش مند) ، قائد(Leader) ، خطیب ، امیرِ ریاست ، مربِّی(تربیت کرنے والے و پشت پناہ) ، منصف ، استاذ ، مرشد(رہنمائی کرنے والے) ، اَلْغَرَض! زندگی اور معاشرے کے ہر پہلو کے اعتبار سے رہنما ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آپ کی حیاتِ طیّبہ میں انسانیت کے ہر پہلو کے اعتبار سے مکمل رہنمائی موجود ہے۔
سیرتِ طیّبہ کی اسی اہمیت و ضرورت کے پیشِ نظر دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران حضرت مولانا حاجی محمد عمران عطاری صاحب نے ادارۂ تصنیف و تالیف المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Center) سے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مُقدَّس سیرت پر ایک ایسی مختصر کتاب مرتب کیا جائے جو آسان زبان و بیان پر مشتمل ہو ، تاکہ عوام الناس بالخصوص بچوں اور نوجوان نسل (اسکولز ، کالج کے طلبہ ) کیلئے اس کا پڑھنا آسان ہو۔ آپ نے سیرتِ طیّبہ کے ابتدائی چند صفحات پر کام کر کے اس عظیم کام کا آغاز فرمایا اور پھر تکمیل کیلئے المدینۃ العلمیہ کے سپرد کر دیا۔ عجب اتفاق ہے کہ نگرانِ شوریٰ کی خواہش سے چند دن پہلے نگرانِ المدینۃ العلمیہ ، رکنِ شوریٰ مولانا شاہد عطاری مدنی صاحب نے نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سیرتِ طیّبہ پر جدید تقاضوں کے مطابق کام کرنے کیلئے المدینۃ العلمیہ میں “ شعبہ سیرتِ مصطفیٰ “ قائم فرمایا۔ رکنِ شوریٰ کی شفقتوں کی بدولت سعادتوں بھرا یہ عظیم کام اسی شعبے کے حصے میں آیا اور مختصر مدت میں اس مختصر کتاب کو مرتب کیا گیا۔ اس پر مولانا محمد حامد سراج مدنی عطاری صاحب (ذمہ دار شعبہ سیرتِ مصطفیٰ)نے کام کرنے کی سعادت پائی ، جبکہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے نائب مدیر مولانا محمد راشد علی مدنی عطاری صاحب اور مولانا محمد جان مدنی عطاری صاحب (معاون ، شعبہ سیرتِ مصطفیٰ) نے خوب تعاون فرمایا۔ کام کی تفصیل یوں ہے :
☆اوّلاً نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبہ کو ایک تسلسل کے ساتھ تحریر کیا گیا۔ قارئین کی آسانی کیلئے حیاتِ طبیہ کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے بعد میں ابواب بندی بھی کی گئی ہے۔ ☆بعد ازاں مکمل مواد کی تخریج و تفتیش اورتقابل کیا گیا ہے۔ ☆کتاب کو آسان سے آسان تر بنانے کیلئے آسان اور سادہ الفاظ و جملے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب فائنل ہونے کے بعد اس کا مسودہ ایک عام شخص سے پڑھوایا گیا ، انہیں مشکل لگنے والے سو سے زائد الفاظ اور دو درجن سے زائد جملے آسان اردو میں تبدیل کئے گئے۔ ☆سیرتِ طیبہ کو 63 سے92صفحات کے درمیان پیش کرنے کا ذہن تھا ، یوں اختصار کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیرتِ طیبہ کے کئی واقعات خلاصتاً ذکر کئے گئے ہیں ، تفصیل کیلئے مکتبۃ المدینہ کی دو کتب “ سیرتِ مصطفیٰ ، سیرتِ رسولِ عربی “ ملاحظہ فرمائیں۔ ☆سیرتِ طیبہ سے متعلق مقامات کی جدید معلومات (یعنی محلِّ وقوع ، مکہ یا مدینہ سے مسافت ، بائی روڈ فاصلہ ، موسم ، موجودہ نام وغیرہ ) پیش کی کرنے کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے۔ (یہ معلومات مختلف ویب سائٹس اور بعض عربی کتب سے ماخوذ ہیں۔ ) ☆قرآنِ پاک کی تمام آیات کو قرآنی رسم الخط میں لکھنے کے ساتھ ساتھ ان کا مکمل حوالہ بھی دیاگیا ہے ، اکثر مقامات پرمکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ کنز الایمان اور بعض مقامات پر حضرت مفتی قاسم عطاری صاحب کے ترجمہ کنزالعرفان کو ذکر کیا گیا ہے۔ ☆مختلف مقامات کی تصاویر اور بعض غزوات کے نقشے بھی شامل کئے گئے ہیں۔ ☆شمائل و خصائل سیرتِ طیّبہ کا سنہری باب ہے اور ایک مسلمان کیلئے قابلِ عمل نمونہ ، یوں بعض شمائل و خصائل بھی شاملِ کتاب ہیں۔ اسی طرح کتاب کے آخر میں شانِ مصطفےٰ پر بعض آیات و احادیث سمیت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے استعمال کی اشیا کے بارے معلومات بھی شامل ہیں۔ ☆نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مکمل حیاتِ طیّبہ اجمالی طور پر کتاب کے آخر میں بعنوان “ حیاتِ مصطفےٰ ایک نظر میں “ درج ہے۔ ☆کتاب میں کوئی شرعی غلطی نہ ہو ، اس لیے دارالافتاء اہل سنت کے مفتی محمدعبدالماجد عطاری مدنی صاحب سے شرعی تفتیش بھی کروائی گئی ہے۔
اللہ پاک ہماری اس سعی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ، اسے عوام بالخصوص طلبہ کرام کے حق میں نافع بنائے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین
شعبہ سیرتِ مصطفیٰ(المدینۃ العلمیہ )
شعبان المعظم۱۴۴۲ / مارچ2021
تصدیق نامہ
تاریخ : 2021-03-21 حوالہ نمبر : 255
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَلِیْنَ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن
تصدیق کی جاتی ہےکہ کتاب “ آخری نبی کی پیاری سیرت “ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) پر شعبہ تفتیشِ کتب ورسائل کی جانب سے نظرثانی کی کوشش کی گئی ہے۔ شعبہ نے اسے عقائد ، کفریہ عبارات ، اورفقہی مسائل وغیرہ کے حوالے سے مقدور بھر ملاحظہ کر لیا ہے ، البتہ کمپوزنگ یا کتابت کی غلطیوں کا ذمہ شعبہ پر نہیں۔
شعبہ تفتیشِ کتب و رسا ئل (دعوتِ اسلامی)
21-03-2021
پہلا باب
رَسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی ولادت
Blessed Birth
of the
Holy Prophet
اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : لَا تَجْعَلُوا بُیُوْتَکُمْ قُبُورًا وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِی عِیْدًا اپنے گھروں کو قَبرستان مت بناؤ اور نہ ہی میری قبر کو عید بناؤ! وَصَلُّوا عَلَیَّ فَاِنَّ صَلَا تَکُم تَبْلُغُنِی حَیْثُ کُنْتُمْ اور مجھ پر دُرُود ِپاک پڑھاکرو ، بے شک تمہارا دُرُود مجھ تک پہنچتا ہے چاہے تم جہاں بھی ہو۔
اللہ پاک کی عبادت اور اطاعت انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد ہے۔ دنیا کی چکاچوند اور نفس و شیطان کے ورغلانے سے یہ مقصد نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ اس مقصد کو یاد دلانے اور انسان کو سیدھی راہ پر چلانے کیلئے اللہ کریم نے مختلف زمانوں میں کئی انبیائے کرام بھیجے۔ انبیائے کرام انسان کو اس کے مقصدِ حقیقی کی پہچان کرواتے اور اس کی ہدایت و رہنمائی فرماتے۔ یہ انبیا مختلف زمانوں میں مخصوص قوموں اور ملکوں کی طرف بھیجے گئے۔ سب سے آخر میں اللہ کریم نے اپنے پیارے حبیب ، جنابِ احمدِ مجتبیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو قیامت تک کیلئے تمام کائنات کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔ آپ کی آمد سے پہلے گزشتہ انبیائے کرام کی تعلیمات بھلا دی گئیں تھیں ، دنیا جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی ، کئی برائیوں نے دنیا کے سارے معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ بالخصوص عرب سرزمین تو بدترین بدحالی کا شکار تھی۔ ظلم و زیادتی ، فحاشی و عریانی ، لڑائی جھگڑا ، جوا اور شراب کی کثرت ، قتل و غارتگری ، جاہلانہ رسومات ، بت پرستی ، انانیت اور جہالت کے بادل ہر طرف تاریکی پھیلا رہے تھے۔
ایسے ماحول میں اللہ کے آخری نبی ، حضرتِ محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ولادت ہوئی۔ آپ کی ولادت کے ساتھ ہی کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جو اس بات کی خوشخبری تھے کہ وہ زمانہ آ چکا ہے کہ جس میں اسلام کی روشنیاں کفر کی تاریکیوں کو مٹا دیں گی۔ نوشیرواں کے عالیشان محل کا پھٹنا اور اس کے چودہ کنگوروں کا گِر جانا ، فارس کے آتش کدہ کی صدیوں سےروشن آگ کا یکدم بجھ جانا ، دریائے ساوہ کے موجیں مارتے پانی کا خشک ہو جانا ، یہ اور اس طرح کے کئی واقعات اس بات کی علامت تھے کہ اب عالم کا رنگ بدلا ہے اور نئی حکومت کا سکہ چلے گا۔
آئی نئی حکومت سکہ نیا چلے گا
عالم نے رنگ بدلا صُبحِ شبِ ولادت
ایسے ماحول میں حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے بظاہر سادہ سے مکان میں سعادتوں اور مسرتوں کا نور چمکا اور اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جلوہ گری ہوئی۔ آپ کی ولادت سے صرف آپ کی والدہ ہی خوشیوں سے مسرور نہیں ہوئیں بلکہ تمام غمزدوں اور درد کے ماروں کے لبوں پر مسکراہٹیں پھیل گئیں۔ آپ عرب کے مشہور خاندان قریش کی شاخ بنو ہاشم سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کا خاندان تمام خاندانوں میں سب سے اعلیٰ ہے ، خود اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : اللہ پاک نے حضرت اسمٰعیل علیہ السَّلام کی اولاد میں سے “ کنانہ “ کو برگزیدہ بنایا اور “ کنانہ “ میں سے “ قُریش “ کو چنا اور “ قُریش “ میں سے “ بنو ہاشم “ کو منتخب فرمایااور “ بنو ہاشم “ میں سے مجھ کو چن لیا۔
مشہور قول کے مطابق واقعَۂ اصحابِ فیل کے 55دن کے بعد جب ربیع الاول کا مہینہ تھا ، پیر کا دن تھا ، صبحِ صادق کی سُہانی گھڑی تھی ، رات کی سیاہی چھٹ رہی تھی اور دن کا اجالا پھیلنے لگا تھا ، 571 عیسوی کے اپریل کی 20 تاریخ تھی جب مکہ شریف میں اپنی والدہ کے گھر آپ کی ولادت ہوئی۔
پُرنور ہے زمانہ صبحِ شبِ ولادت
پردہ اٹھا ہے کس کا صبحِ شبِ ولادت
والدِ ماجد کی طرف سے نسب شریف یہ ہے :
(1)حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (2)بن عبداللہ (3)بن عبدالمطلب (4)بن ہاشم (5)بن عبدِمَناف (6)بن قُصَی (7)بن کِلاب (8)بن مُرَّہ (9)بن کَعْب (10)بن لُوَی (11)بن غالب (12)بن فِہر (13)بن مالک (14)بن نَضر (15)بن کِنانہ (16)بن خُزَیمہ (17)بن مُدْرِکہ (18)بن الیاس (19)بن مُضَر (20)بن نِزار(21) بن مَعد (22)بن عدنان ۔
جبکہ والدہ ماجدہ کی طرف سے نسب شریف یوں ہے : (1)حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (2)بن آمنہ (3)بنت وہب (4)بن عبدِ مُناف (5)بن زُہرہ (6)بن کلاب( )
آپ کے والدِ گرامی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ سیرت و صورت دونوں میں بے مثال تھے۔ ان کا وصال آپ کی ولادت سے قبل 25سال کی عمر میں ہوا۔ جبکہ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ یہ اپنے نسب و شرف میں قریش کی تمام خواتین میں سب سے افضل تھیں۔ والد کے وصال کے بعد انہوں نے اپنے لختِ جگر کی پرورش کی۔
دوسرا باب
رَسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کابچپن
Blessed Childhood
of the
Holy Prophet
مکہ کے معزز لوگوں کا یہ رواج تھا کہ وہ اپنے بچوں کو ماں کی آغوش میں پلتا دیکھنے کے بجائے صحرا نشین قبیلوں کے پاس بچپن گزارنے کیلئے بھیجتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دیہات کی خالص غذائیں کھا کر بچوں کے اعضا اور جسم مضبوط ہوں اور ان کی فصیح و بلیغ عربی سیکھ کر وہ بھی اسی فصاحت و بلاغت سے کلام کرنے والے بن جائیں۔ اسی وجہ سے اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے سِپُرد کر دیا گیا۔ ان کا تعلق قبیلہ “ بنو سعد “ سے تھا جو بنی ہوازن کی ایک شاخ تھا ، یہ قبیلہ عربیت اور فصاحت میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔ حضرت حلیمہ اپنے قبیلے کی خواتین کے ساتھ مکہ میں بچے کو رضاعت پر لینے کیلئے آئیں۔ حضرت حلیمہ کی قسمت کا ستارہ اپنے عروج پر تھا کہ آپ کو دو سال تک دودھ پلانے کی سعادت ان کے حصے میں آئی۔
بعض روایات کے مطابق بی بی حلیمہ کے علاوہ مزید 6 خوش قسمت خواتین نے آقا کریم علیہ السَّلام کودودھ پِلانے کا شرف حاصل کیا ، ان تمام عورتوں کو دولتِ ایمان نصیب ہوئی ۔ جبکہ حضرت حلیمہ کو دودھ پلانے کی خدمت کا یہ انعام ملا کہ اُن کا پورا گھرانہ دولتِ ایمان سے مالامال ہوا۔ حضرت حلیمہ کے شوہر حضرت حارث رضی اللہ عنہ ، صاحبزادے عبداللہ بن حارث اور دو صاحبزادیاں انیسہ بنتِ حارث اور جدامہ بنتِ حارث ہیں۔ جُدامہ بنتِ حارث ہی شَیما کے نام سے مشہور ہیں جو اللہ کے آخری نبی علیہ السَّلام کی بڑی رضاعی بہن تھیں اور آپ کو گود میں کھلاتی اور لوریاں دیتی تھیں۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جب اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو لینے کیلئے آپ کے مکانِ عالیشان پرپہنچیں تو فرماتی ہیں : میں نے دیکھا کہ آپ سفید کپڑے میں لپٹے ہوئے ہیں ، آپ کے پاس سے خوشبوئیں اُٹھ رہی ہیں ، سبز رنگ کا ریشمی کپڑا نیچے بچھا ہوا ہے ، پُشت کے بَل آرام فرما رہے ہیں۔ میں نے آہستہ سے قریب ہوکر اپنے ہاتھوں پر اُٹھا کر آپ کے سینۂ مبارَک پر ہاتھ رکھا تو آپ مسکرانے لگے ، اپنی سرمگیں آنکھیں کھول دِیں اور مجھے دیکھنے لگے ، میں نے محسوس کیا کہ ان آنکھوں سے انوار نکل رہے ہیں اور آسمان کو چھو رہے ہیں۔ بے اختیار ہو کر میں نے آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ لیا اور آپ کو اپنے سینے سے لگا لیا۔
جب آپ رضی اللہ عنہا دودھ پلانے بیٹھیں تو نبوّت کی برکتیں ظاہر ہونے لگیں۔ خداکی شان کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے اِس قدر دُودھ بڑھ گیا کہ آپ اور آپ کے رِضاعی بھائی عبداللہ بن حارث نے خوب پیٹ بھر کر دودھ پیا اور دونوں آرام سے سو گئے۔ رَسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی رضاعی والدہ کا صرف ایک طرف سے دودھ پیتے ، دوسری طرف سے وہ پلانا بھی چاہتیں تب بھی نوش نہ فرماتے کہ وہ بھائی کا حصہ تھا ، یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ عدل و انصاف کا بول بالا کریں گے۔ آپ کی برکت سے حضرت حلیمہ کی لاغر اُونٹنی جو دودھ سے خالی تھی اس میں بھی خوب دودھ آگیا۔ حضرت حلیمہ کے شوہر نے اُس کا دُودھ دوہا اور دونوں میاں بیوی نے خُوب سیر ہو کر دودھ پیا اور وہ رات بڑی راحت و سکون کے ساتھ بسر کی اور رات بھر میٹھی نیند کے مزےلوٹتے رہے۔ جب بیدار ہوئے تو حضرت حلیمہ کے شوہر حارث بن عبدالعزیٰ کہنے لگے : حلیمہ! تم بڑا ہی مُبارَک بچّہ لائی ہو۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا نے کہاکہ واقعی مجھے بھی یہی اُمّید ہے کہ یہ بچہ بڑا بابرکت ہے اور خدا کی رحمت بن کر ہمیں ملا ہے۔ عن قریب ہمارا گھر خیر و برکت سے بھر جائے گا۔
حضرت حلیمہ فرماتی ہیں کہ(جب)ہم رَسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو لے کر مکہ شریف سے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے تومیرا وہی خَچّر جو پہلے کمزوری کی وجہ سے قافلے والوں سے پیچھے رہ جاتا تھا اب اِس قَدر تیز چلنے لگا کہ کوئی دوسری سواری اس کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی۔
اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب سے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے ان کے مویشی بڑھنے لگے ، ان کی عزت میں اضافہ ہوا اور خیرو برکت نصیب ہونے لگی۔ جب تک ا ٓپ وہاں رہے بی بی حلیمہ کا گھر خیرو برکت سے معمور رہا ، دن بدن ان انعامات اور برکات میں اضافہ ہوتا رہا اور وہ خوشحالی کی زندگی بسر کرنے لگے۔ حضرتِ حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : دودھ پینے کی عمر میں آپ کی دیکھ بھال میں مجھے بہت آرام تھا۔ آپ دوسرے بچوں کی طرح نہ چیختے چِلّاتے اور نہ گِریہ وزاری فرماتے۔ 2ماہ کی عمر میں آپ گھٹنوں کے بل چلنے لگے ، 3ماہ کی عمر میں اٹھ کر کھڑے ہونے لگے ، 4ماہ کی عمر میں دیوار کے ساتھ ہاتھ رکھ کر ہر طرف چلا کرتے ، 5ماہ کی عمر میں چلنے پھرنے کی پوری قوت حاصل کر چکے تھے ، 8ماہ کی عمر میں یوں کلام فرماتے کہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ، 9ماہ کی عمر میں فصیح باتیں کرنا شروع فرما دیں۔ آپ نے اپنی عُمر کے ابتدائی حصّے میں جو کلام فرمایا وہ اَللہُ اکْبَر کَبِیْراً وَالْحَمْدُ لِلّٰہ کَثِیْراً (ترجمہ : اللہ سب سے بڑا ہے اور ہر طرح کی حمد وتعریف اللہ کیلئے ہے)تھا۔ جھولا جھولتے وقت آپ چاند سے باتیں کرتے اور اپنی اُنگلی سے جس طرف اشارہ فرماتے ، چاند اُسی طرف جھک جاتا۔